پاکستان

'شمالی علاقہ جات پروازوں کیلئے خطرناک ترین'

چترال ایک ایسا علاقہ ہے، جہاں کسی بھی جہاز کے لیے پرواز کرنا ایک مشکل ترین عمل ہوتا ہے، ایئر وائس مارشل (ر) عابد راؤ

اسلام آباد: ایئر وائس مارشل (ر) عابد راؤ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور خاص طور پر چترال ایک ایسا علاقہ ہے، جہاں کسی بھی جہاز کے لیے پرواز کرنا ایک مشکل ترین عمل ہوتا ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز وائز' میں گفتگو کرتے ہوئے ریٹائرڈ ایئروائس مارشل عابد راؤ کا کہنا تھا کہ اگرچہ اے ٹی آر طیاروں کا ریکارڈ اچھا رہا ہے، لیکن جس مقام پر پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کا طیارہ گر کر تباہ ہوا، وہاں کوئی بھی جہاز انجن فیل ہونے کی صورت میں توازن برقرار نہیں رکھ پاتا۔

انھوں نے کہا 'ایک بنیادی وجہ تو ایئرپورٹس پر رن وے کی لمبائی کم ہونا ہے، اس وقت صرف اسکردو کا رن وے چترال اور گلگت سے بڑا ہے، لہذا صرف ان ہی جہازوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جو اس طرح کے رن ویز پر لینڈ کرنے کے قابل ہوں'۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسری وجہ وہاں پہاڑیاں ہیں، لہذا اس بات کا تعین کرنا بہت ضروری ہے کہ اگر جہاز کے ایک انجن میں خرابی آجائے تو کیا دوسرے انجن کی مدد سے طیارہ ان رکاوٹوں عبور کرسکتا ہے یا نہیں۔

تیسری وجہ بتاتے ہوئے عابد راؤ کا کہنا تھا کہ اس علاقے تک رسائی بہت مشکل ہے اور اگر کوئی حادثہ ہوجاتا ہے تو زخمیوں تک بھی بروقت پہنچنا بظاہر ناممکن ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ماضی بھی اس علاقے میں فضائی حادثات ہوتے رہے ہیں، 1988ء میں پی آئی اے کا ہی ایک فوکر طیارہ گر کر تباہ ہوا تھا جس کا آج تک کچھ پتہ نہیں چل سکتا۔

مزید پڑھیں: پاکستان کے فضائی حادثات کی تاریخ

اس سوال پر کہ اس طرح کے حادثات میں انسانی غلطی کا عنصر کس حد تک پایا جاتا ہے؟ ایئر وائس مارشل عابد راؤ کا کہنا تھا کہ اگر عالمی سطح پر دیکھا جائے تو 85 فیصد واقعات انسانی غلطی کی ہی وجہ سے پیش آتے ہیں، جبکہ 15 فیصد حادثات ایسے ہیں جو قدرتی طور پر رونما ہوتے ہیں جس کی وجہ موسم کی خرابی بھی ہوسکتی ہے۔

تاہم عابد راؤ کا کہنا تھا کہ زیادہ تر واقعات میں انسانی غفلت ہی بنیادی وجہ ہوتی ہے۔

پروگرام میں ایوی ایشن کے ماہر صلاح الدین گل سے بھی بات کی گئی، جن کا کہنا تھا کہ اے ٹی آر کو فوکر کی جگہ استعمال کے لیے لیا گیا تھا، یہ ایک ایسا طیارہ ہے جو ایک انجن کو بند کرکے بھی اپنے مقام پر باآسانی لینڈ کرسکتا ہے۔

انھوں نے کہا 'میں اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ سمجھتا ہوں کہ گذشتہ روز جو حادثہ پیش آیا اُس میں خرابی صرف ایک نہیں بلکہ دونوں انجن میں ہوگی جس کی وجہ سے یہ اونچائی کو برقرار نہیں رکھ سکا اور حادثے کا شکار ہوگیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ ممکن ہے جب یہ طیارہ اسلام آباد سے چترال گیا تھا تب ہی اس میں کوئی خرابی ہو جس کا وہاں پہنچنے پر درست معائنہ نہیں کیا جاسکا لیکن چونکہ جہاز کا بلیک باکس مل گیا ہے تو تحقیقات کے بعد ہی اصل حقیقت سامنے آئے گی۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز پی آئی اے کا چترال سے اسلام آباد آنے والا مسافر طیارہ حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہونے سے جہاز کے عملے سمیت 48 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے کا طیارہ گر کر تباہ، 48 افراد جاں بحق

سول ایوی ایشن اتھارٹی نے جہاز کے تباہ ہونے اور اس میں سوار تمام مسافروں کی ہلاکت کی تصدیق کر دی، تاہم حادثے کی وجوہات فوری طور پر سامنے نہ آسکیں، جبکہ حادثے کی وجہ جاننے کے لیے تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کی جاچکی ہے۔

واضح رہے کہ حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہونے والے اس بدقسمت مسافر طیارے میں معروف شخصیت جنید جمشید بھی سوار تھے۔