پاکستان

'قوم کی محبت کے سامنے جان کی پروا نہیں'

29 سالہ باہمت رافعہ بم ڈسپوزل یونٹ میں کام کرکے اپنے ملک و قوم کی خاطر کچھ کر دکھانے کا عزم رکھتی ہیں۔

پاکستان میں دہشت گردی سے سب زیادہ متاثر ہونے والے صوبے خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی کانسٹیبل رافعہ قاسم بیگ پاکستان اور اس خطے کی وہ واحد خاتون ہیں جنہوں نے حال ہی میں بم ڈسپوزل یونٹ (بی ڈی یو) میں شمولیت اختیار کی۔

اگرچہ بم ناکارہ بنانا ایک نہایت مشکل اور خطرناک کام ہے، لیکن 29 سالہ باہمت رافعہ اپنے ملک و قوم کی خاطر کچھ کر دکھانے کا عزم رکھتی ہیں۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز وائز' میں گفتگو کرتے ہوئے رافعہ کا کہنا تھا 'آج میں پوری قوم کی بیٹی ہوں جو میرے لیے بہت فخر کی بات ہے اور یہ میرے رب کا احسان ہے جس کی بدولت میں اس مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی'۔

مزید پڑھیں: بم ڈسپوزل یونٹ کا حصہ بننے والی پہلی خاتون اہلکار

اپنے کیریئر اور بم ناکارہ بنانے والے اس خطرناک پیشے کے انتخاب کی وجہ بیان کرتے ہوئے رافعہ کا کہنا تھا ' پاکستان میں خواتین کئی شعبوں میں آگے ہیں اور صرف بم ڈسپوزل یونٹ ہی ایسا محکمہ تھا جس میں اس سے پہلے کوئی خاتون نہیں تھی، لہذا میں نے سوچھا کہ کیوں نہ اس کا حصہ بنا جائے'۔

رافعہ بیگ نے 15 روز کی ابتدائی تربیت کے بعد بم ڈسپوزل یونٹ میں شمولیت اختیار کی— فوٹو: ڈان نیوز

انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے آپ کو ایک خوش قسمت اہلکار سمجھتی ہیں جنہیں انسپکٹر جنرل (آئی جی) خیبر پختونخوا ناصر خان درانی کی سربراہی نصیب ہوئی جو ایک مثالی شخصیات ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی جی کے پی کے نے جو سب سے اہم کام کیا وہ صوبے میں 6 ایسے تربیتی مراکز کا قیام ہے جہاں عالمی معیار کے مطابق اہلکاروں کو سیکھنے کا موقع مل رہا ہے اور پولیس کا مورال بھی بلند ہورہا ہے۔

رافعہ نے بتایا کہ '2015 سے قبل یہاں کوئی ایسا تربیتی اسکول نہیں تھا اور اسی وجہ سے بہت سی قیمتی جانیں بھی جاچکی ہیں، لیکن دھماکا خیز مواد کو ناکارہ بنانے کی تربیت فراہم کرنے کے لیے آئی جی پولیس نے ایسے اسکولز بنائے جہاں ہر لحاظ سے اہلکاروں کو سکھایا جارہا ہے اور دوسرے ممالک سے ماہرین یہاں آکر ہمیں تربیت دیتے ہیں'۔

اس سوال پر کہ باقاعدہ طور پر بم ڈسپوزل یونٹ میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد خود آپ کے خاندان اور دوسرے لوگوں کا اس پر کیسا ردعمل ہے؟ رافعہ بیگ کا کہنا تھا کہ 'میری فیملی اب میرے والدین اور میرے بہن بھائی ہی نہیں رہے، بلکہ پورا ملک میرا خاندان ہے جہاں سے مجھے مثبت ردعمل ملا اور قوم کی اس محبت کے سامنے مجھے جان کی بھی پروا نہیں'۔

باہمت رافعہ اپنے ملک و قوم کی خاطر کچھ کر دکھانے کا عزم رکھتی ہیں— فوٹو: ڈان نیوز

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ معاشرے میں دیگر خواتین بھی اگر یہی پیشہ اختیار کرنا چاہیں تو آپ کا اُن کے لیے کیا پیغام ہوگا؟ انھوں نے کہا 'ہمارا یہ ایمان ہو کہ زندگی اور موت صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے تو میرا نہیں خیال کہ دل میں کسی اور چیز کا ڈر باقی رہتا ہے، کیونکہ انسان کو سب سے زیادہ موت کا ہی ڈر ہوتا ہے، لیکن جو موت پر قدرت رکھتا ہے اس کا ڈر نہیں ہوتا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ایک پیغام تو یہ بھی دینا چاہتی ہوں کہ بم ڈسپوزل کی بنیاد تو میں نے رکھ دی ہے، لیکن اس پر عمارت کھڑی کرنا دیگر خواتین کا کام ہے'۔

درپیش چیلنجز پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'مشکلات تو ہر ایک جگہ ہوتی ہیں اور پولیس ایک ایسا شعبہ ہے جہاں خطرات زیادہ ہوتے ہیں، لیکن اس میں خوشی اس وقت ہوتی ہے جب آپ قوم کے لیے کچھ کررہے ہوں جو کہ ہر کوئی نہیں کرتا، لہذا عوام کے دل کی دعا ہی سب سے بڑی کمائی ہے'۔

ان کا کہنا تھا 'جب کسی پر مشکل آتی ہے یا کوئی ذمہ داری سونپی جاتی ہے تب ہی پتا چلتا ہے کہ وہ کتنا باصلاحیت ہے، ابھی یہ میرے کیریئر کی ابتداء ہے اور ابھی بہت سے کورسز کرنا باقی ہیں، لہذا میں اپنے ملک کے لیے مستقبل میں عملی طور پر کچھ کرنا چاہتی ہوں'۔

انھوں نے بتایا کہ گذشتہ سات برس میں ایک کانسٹیبل کی حیثیت سے کوئی بھی کام ایسا نہیں، جو انھوں نے نہ کیا ہو۔

رافعہ قاسم بیگ نے رواں ماہ ہی بم ڈسپوزل یونیٹ کے محکمے میں 15 روز کی ابتدائی تربیت کے بعد باقاعدہ شمولیت اختیار کی تھی جو کہ 7 سال سے پشاور پولیس میں خاتون کانسٹیبل کے فرائص بھی سرانجام دے رہی ہیں۔