کرسمس بازار واقعہ: گرفتار پاکستانی کو رہا کردیا گیا
برلن: جرمنی کے دارالحکومت برلن کے کرسمس بازار میں ہجوم پر ٹرک چڑھا کر لوگوں کو ہلاک کرنے کے شبہے میں گرفتار پاکستانی تارک وطن کو ناکافی شواہد کی بنا پر رہا کردیا گیا۔
جرمن پراسیکیوٹر کے آفس سے جاری بیان میں کہا گیا کہ کرسمس بازار حملے میں ملوث ہونے کے شبہے میں 19 دسمبر کو گرفتار کیے گئے مشتبہ شخص کو فیڈرل پراسیکیوٹر کے حکم کے بعد رہا کردیا گیا۔‘
قبل ازیں جرمن دارالحکومت میں حالیہ برسوں کے سب سے بڑے حملوں میں سے ایک کے بعد پکڑے جانے والے مشتبہ شخص کے بارے میں یہ شبہات ابھرنے لگے تھے کہ وہ اس قتل عام کا اصل ذمہ دار ہے یا نہیں۔
برلن پولیس کے سربراہ کلاﺅس کنڈٹ کے مطابق 'علاقے میں ایک خطرناک جرائم پیشہ شخص ہوسکتا ہے' اور وہاں سیکیورٹی بڑھانے کا اعلان بھی کیا۔
پراسیکیوٹر پیٹر فرینک نے بتایا تھا کہ 'ہم اس خیال پر غور کررہے ہیں کہ گرفتار ہونے والا شخص شاید حملہ آور نہیں'۔
پولیس کی جانب سے فرانزک ورک اور پوچھ گچھ سمیت عوام سے سوالات کا سلسلہ جاری ہے اور لوگوں سے واقعے کی تصاویر اور ویڈیو فوٹیج بھیجنے کی درخواست کی گئی ہے۔
اس سے قبل جرمنی کے وزیر داخلہ تھومس دی میزیرے نے بتایا تھا کہ کرسمس بازار میں ہونے والے حملے میں ملوث مشتبہ شخص پاکستانی تھا جو پناہ کی غرض سے جرمنی آیا تھا۔
داعش نے واقعے کی ذمہ داری قبول کرلی
ادھر فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق داعش نے جرمنی میں کرسمس بازار میں ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ داعش کی عماق نیوز ایجنسی نے ایک جاری بیان میں کہا کہ 'داعش سے تعلق رکھنے والے ایک سپاہی نے اتحادی ممالک کی جانب سے شہریوں کو نشانہ بنانے پر برلن میں آپریشن کیا'۔
تاہم بیان میں حملہ آور کی شناخت نہیں بتائی گئی۔
’حملے میں ملوث مشتبہ شخص پاکستانی‘
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق حکام نے کہا کہ مشتبہ حملہ آور کو واقعے کی جگہ سے تقریباً 2 کلو میٹر کے فاصلے سے گرفتار کیا گیا۔
تاہم تھومس دی میزیرے کے مطابق مشتبہ شخص نے حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی۔
جرمن وزیر داخلہ نے صحافیوں کو بتایا کہ ’مشتبہ شخص پاکستانی ہے جو پناہ کی غرض سے 31 دسمبر 2015 کو جرمنی آیا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مشتبہ شخص کی پناہ کی درخواست اب تک زیر التوا ہے جبکہ اس خوفناک حملے کی ذمہ داری داعش یا کسی دوسرے دہشت گرد گروپ نے قبول کرنے کا دعویٰ نہیں کیا، تاہم ہمیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ واقعہ ایک منظم حملہ تھا۔‘
جرمن میڈیا، پولیس نے کیا کہا؟
برلن کے کرسمس بازار میں گذشتہ روز رونما ہونے والے اس واقعے میں 12 افراد ہلاک ہوئے تھے، جبکہ متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جرمن پولیس نے اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ٹرک ڈرائیور واقعے کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔
دریں اثنا پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ مبینہ طور پر واقعے کے ذمہ دار ایک شخص کو گرفتار کرلیا گیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق جرمن اخبار ’بلڈ‘ کا کہنا ہے کہ 'جرمنی کے دارالحکومت برلن میں واقع کرسمس بازار میں شہریوں کو کچلنے والا مشتبہ ٹرک ڈرائیور 23 سالہ نوجوان ہے جس کا نام نوید ہے اور اس کا تعلق پاکستان سے ہے'۔
واقعے کی تحقیقات کرنے والے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے جرمن اخبار بلڈ نے لکھا کہ پاکستانی نوجوان ایک سال قبل جرمنی آیا تھا۔
دوسری جانب جرمن اخبار ’Der Tagesspiegel‘ کی رپورٹ کے مطابق گرفتار ہونے والے مشتبہ شخص کی شناخت اب تک نہیں کی جاسکی مگر اس کا تعلق افغانستان یا پاکستان سے ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جرمنی کے کرسمس بازار میں ٹرک نے شہریوں کو کچل دیا، 12 ہلاک
اخبار کے مطابق ابتدائی تفتیش میں مشتبہ شخص نے اپنے متعلق زیادہ معلومات نہیں بتائیں لیکن جرمن پولیس اس شخص کو متعدد فرضی ناموں سے جانتی ہے اور یہ شخص کبھی اپنی قومیت پاکستانی بتاتا رہا ہے اور کبھی خود کو اٖفغانی ظاہر کرتا رہا ہے۔
اخبار نے مزید لکھا کہ گرفتاری کے وقت اس شخص کے پاس ہتھیار موجود نہیں تھے اور نہ ہی اس نے گرفتاری میں کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا کیا تاہم اب بھی اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی کہ گرفتار ہونے والا یہ شخص ہی شہریوں کو کچلنے والے ٹرک کا ڈرائیور تھا۔
خیال رہے کہ اس سے قبل جرمنی میں ہونے والے متعدد دہشت گردی کے حملوں میں سیکڑوں شہری اور سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں، جن میں سے بیشتر حملوں کی ذمہ داری داعش کی جانب سے قبول کی گئی۔
رواں سال جولائی میں جرمنی کی جنوبی ریاست بواریا میں کلہاڑی بردار ایک شخص نے ٹرین میں موجود افراد پر حملہ کرکے 5 کو زخمی کردیا تھا، اس واقعے کے 6 روز بعد اسی ریاست میں ہونے والے ایک خود کش دھماکے کے نتیجے میں 15 افراد زخمی ہوئے تھے۔
23 جولائی کو جرمنی کے شہر میونخ کے ایک شاپنگ سینٹر میں فائرنگ کے واقعے میں حملہ آور سمیت 9 افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے تھے۔
فروری میں مبینہ طور پر داعش کے حکم پر ایک جرمن نژاد 16 سالہ مراکشی لڑکی نے ایک پولیس افسر کو چھری کے وار سے بری طرح زخمی کردیا تھا۔