پاکستان

کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹر حملے پر بھی عدالتی کمیشن کا مطالبہ

پولیس ٹریننگ سینٹر پر ہونےوالےحملے کی تحقیقات کےلیے بھی کمیشن بننا چاہیئےجس سے مزید حقائق سامنے آئیں، پیپلز پارٹی رہنما

ایک طرف کوئٹہ سول ہسپتال خود کش حملے کی تحقیقات کے سلسلے میں عدالتی کمیشن کی انکوائری رپورٹ سامنے آنے کے بعد حکومت کو ایک نئے دباؤ کا سامنا ہے، تو دوسری جانب اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے کوئٹہ میں پولیس کے تربیتی مرکز پر ہونے والے دہشت گرد حملے کی تحقیقات بھی عدالتی کمیشن کے ذریعے کروانے کا مطالبہ کردیا۔

کوئٹہ انکوائری کمیشن کی مذکورہ رپورٹ میں دہشت گردی کے خلاف حکومتی اقدامات میں خامیوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ سول ہسپتال خود کش حملے کے بعد وزارتِ داخلہ کے کردار پر بھی سخت سوالات اٹھائے گئے، لیکن خود وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کمیشن کی رپورٹ کو حقیقت کے برعکس قرار دے چکے ہیں۔

مزید پڑھیں: سانحہ کوئٹہ: 'وفاقی و صوبائی وزراء داخلہ نے غلط بیانی کی'

اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے رہنما سلیم مانڈوی والا کہتے ہیں کہ اگرچہ حکومت رپورٹ تسلیم کرنے کو تیار نہیں، لیکن اس نے حکومتی ناکامیوں پر سے پردہ اٹھا دیا ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' میں گفتگو کرتے ہوئے سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا 'ہم سمجھتے ہیں کہ ایک کمیشن کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سینٹر پر ہونے والے حملے کی تحقیقات کے لیے بھی بننا چاہیئے جس سے مزید حقائق سامنے آئیں'۔

انھوں نے کہا کہ ان کی جماعت نے قومی اسمبلی میں آج ہی ایک تحریک التوا جمع کروائی ہے جس میں پولیس ٹریننگ سنیٹر حملے پر بھی ایک کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اس سوال پر کہ جب پیپلز پارٹی کے دورِ قتدار میں ایبٹ آباد جیسے واقعے پر کمیشن قائم ہوا تو آپ نے نہ تو اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر سے استعفیٰ لیا اور نہ ہی کوئی کارروائی ہوئی تو اب آپ چوہدری نثار سے استعفے کا مطالبہ کیوں کررہے ہیں؟ سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ رپورٹ سامنے آچکی ہے، اب حکومت چاہے اسے مسترد کرے، لیکن حقائق کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

پیپلز پارٹی رہنما کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ وزیرِ داخلہ نے کالعدم تنظمیوں کو کام کرنے کے ساتھ جلسوں کی بھی اجازت دی جس کی وجہ سے یہ تنظیمیں ملک بھر میں متحرک ہورہی ہیں۔

پروگرام میں موجود دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل (ر) اعجاز اعوان کا کہنا تھا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی کمیشن کی رپورٹ سامنے آئی ہے، لیکن بدقسمتی سے اس پر بھی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے الزامات کی سیاست کی جارہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ابھی تو اس رپورٹ پر بحث کا آغاز ہوا ہے، لہذا معاملہ آگے تک جائے گا اور ہوسکتا ہے اگر کوئی ایکش ہوا تو اس سے ماضی میں بننے والے کمیشنز کی رپورٹس بھی سامنے آنے کی ایک امید پیدا ہوجائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری سیاست میں منافقت کا عنصر بہت عام ہے اور جب بھی اس طرح کے حقائق منظر عام پر آتے ہیں تو یہاں ذاتی مفاد کو پہلے دیکھا جاتا ہے۔

اعجاز اعوان نے مزید کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ میں سیکیورٹی سے لے کر حکومتی کاکردگی کا ہر طرح سے ذکر کیا گیا، تاہم خود عدالتوں میں دہشت گردوں اور ان کے سہولیت کاروں کے خلاف مقدمات پر بات نہیں کی گئی، لہذا اگر اس مسئلے کو بھی شامل کیا جاتا تو یہ کسی بھی لحاظ سے ایک مکمل رپورٹ کہلاتی۔

خیال رہے کہ کوئٹہ سول ہسپتال دھماکے کے تحقیقاتی کمیشن کی حال ہی میں سامنے آنے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ حکومت دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے کشمکش کا شکار ہے، نیشنل سیکیورٹی پالیسی پر عمل نہیں کیا جارہا جبکہ قومی لائحہ عمل کے اہداف کی مانیٹرنگ بھی نہیں کی جاتی۔

تحقیقاتی رپورٹ میں وزارت داخلہ کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ سانحہ کوئٹہ پر وفاقی و صوبائی وزراء داخلہ نے غلط بیانی کی، وزارت داخلہ کے حکام وزیر داخلہ کی خوشامد میں لگے ہوئے ہیں، جبکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وزارت داخلہ کو اس کے کردار کا علم ہی نہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے نیکٹا ایگزیکٹو کمیٹی کے فیصلوں کی خلاف ورزی کی، جبکہ ساڑھے 3 سال میں ادارے کا صرف ایک اجلاس بلایا گیا۔

اس رپورٹ کے منظرِ عام پر آنے کے بعد وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ اخبارات کے ذریعے پڑھی جس میں مرچ مصالحہ بھی موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’سانحہ کوئٹہ رپورٹ کے بعد وزیراعظم کو استعفے کی پیشکش کی‘

چوہدری نثار کے مطابق مذکورہ رپورٹ کو وزارتِ داخلہ کا موقف سنے بغیر یکطرفہ طور پر جاری کیا گیا۔

کمیشن کی رپورٹ کے بعد تفصیلی پریس کانفرس میں انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ رپورٹ دیکھنے کے بعد وہ وزیراعظم نواز شریف کے پاس گئے اور اپنا استعفیٰ پیش کیا جسے وزیراعظم نے قبول نہیں کیا۔

ان کے بقول 'رپورٹ میں صرف آفیشل نہیں بلکہ ذاتی الزامات بھی لگائے گئے، مثال کے طور مجھے اس بات سے بہت زیادہ رنج ہوا جب میں نے اخبارات میں پڑھا کہ وزیر داخلہ نے غلط بیانی کی‘۔