پاکستان

قائمہ کمیٹی کی ’نیب آرڈیننس‘ پر نظرثانی کی سفارش

یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ نیب کرپشن کو ختم کرنے کے بجائے اسے فروغ دے رہا ہے، سینیٹر فرحت اللہ بابر

اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون نے نیب آرڈیننس پر نظرثانی کی سفارش کردی۔

سینیٹر جاوید عباسی کی زیر صدارت قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں نیب کے پلی بارگین اور لوٹی ہوئی رقم کی رضا کارانہ واپسی کے اختیارات پر گرما گرم بحث ہوئی۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اجلاس میں نیب آرڈیننس 1999 کے پلی بارگین اور رقم کی رضاکارانہ واپسی کے حوالے سے سیکشن 25 پر نظرثانی کا معاملہ اٹھایا۔

ڈپٹی چیئرمین نیب امتیاز تاجور، ڈی جی آپریشنز ظاہر شاہ اور دیگر حکام نے بیورو کے ان اختیارات کا دفاع کیا۔

یہ بھی پڑھیں: چیئرمین نیب کی جانب سے 'پلی بارگین' قانون کا دفاع

فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ ’یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ نیب کرپشن کو ختم کرنے کے بجائے اسے فروغ دے رہا ہے۔‘

انہوں نے چیئرمین نیب کی پلی بارگین اور رقم کی رضاکارانہ واپسی کی درخواست منظور کرنے کے اختیارات پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’پردہ نشینوں کو بچانے کے لیے چیئرمین نیب نے بلوچستان کے سابق سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کی پلی بارگین کی درخواست قبول کی۔‘

تاہم نیب حکام نے بتایا کہ ’پلی بارگین کے لیے رقم کا تعین کرنے کا اختیار چیئرمین نیب کے پاس ہے، جبکہ اتھارٹی 2010 سے اب تک پلی بارگین اور رضاکارانہ طور پر 37 ارب روپے سے زائد کی رقم وصول کرچکی ہے۔‘

مزید پڑھیں: نیب سے رضاکارانہ رقم واپسی کا اختیار واپس

کمیٹی نے اراکین کی مشاورت کے بعد نیب آرڈیننس پر نظرثانی کی سفارش کی۔

وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ ’نیب آرڈیننس کا ازسرنو جائزہ لینے کے لیے پارلیمانی کمیٹی جلد تشکیل دے دی جائے گی، جبکہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کو اس حوالے سے چیئرمین سینیٹ کی نامزدگیاں مل گئی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت نے بھی کمیٹی کے اراکین کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی کو نام بھجوا دیئے ہیں۔‘

زاہد حامد نے کہا کہ ’حکومت خود یہ سمجھتی ہے کہ نیب آرڈیننس پر نظرثانی کی ضرورت ہے اور یہ کام پارلیمانی کمیٹی کرے گی۔‘

یہ بھی پڑھیں: نیب ملک میں کرپشن کا سہولت کار ہے، سپریم کورٹ

اجلاس کے دوران سینیٹر اعتزاز احسن نے نیب حکام سے حسین نواز اور مریم نواز سے پاناما لیکس پر تحقیقات نہ کیے جانے سے متعلق سوال کیا تو وزیر قانون زاہد حامد برہم ہوگئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اعتزاز احسن میڈیا کی موجودگی میں غیر ضروری سوالات اٹھا رہے ہیں۔‘

اعتزاز احسن کے مطالبے پر قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے حکومتی انکوائری کمیشن بل پر غور موخر کردیا گیا۔

قبل ازیں جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے نیب کے رضاکارانہ رقم واپسی کے قانون پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران حکومتی موقف طلب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’نیب ملک میں کرپشن کا سہولت کار ہے۔‘

جسٹس عظمت سعید شیخ کا کہنا تھا کہ ڈھائی سو کی کرپشن والا جیل اور ڈھائی ارب کی کرپشن والا رقم کی رضاکارانہ واپسی کرتا ہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ برس 24 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو کرپٹ افسران کی جانب سے رضاکارانہ رقم واپسی کے اختیار (Voluntarily Return) کے استعمال سے روک دیا تھا۔

سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ 'عدالت سے بچنے کے لیے نیب کے پاس جا کر مک مکا کیا جاتا ہے، نیب ملزمان کو کرپشن کی رقم واپس کرنے میں قسطوں کی سہولت بھی دیتا ہے اور انھیں کہا جاتا ہے پہلی قسط ادا کرو، پھر کماؤ اور دیتے رہو'۔

رضاکارانہ رقم واپس کرنے والوں میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین سمیت اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران شامل ہیں۔