سندھ: 14 سال سے کم عمر بچوں کی ملازمت پر پابندی
کراچی: سندھ اسمبلی نے 14 سال سے کم عمر بچوں کی ملازمت پر پابندی کا بل متفقہ طور پر منظور کرتے ہوئے چالڈ لیبر کو جرم قرار دیا ہے اور اس کی سزا قید اور جرمانہ تجویز کی ہے۔
سندھ اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور کیا جانے والا بل سندھ میں بچوں کے روزگار کی ممانعت 2017 کے تحت قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو 6 ماہ تک کی قید اور 50000 روپے تک جرمانہ ادا کرنا ہوگا جبکہ اگر بچے سے خطرناک کام لیا جائے گا تو اس کی سزا 3 سال تک قید اور 100000 روپے تک جرمانہ بھی ہوسکتی ہے۔
بل کے مطابق کوئی ادارہ یا فیکٹری کسی بچے کو، جس کی عمر 14 سال سے کم ہو، نوکری نہیں دے سکتا جبکہ 14 سے 18 سال کی عمر کے بچوں کی ملازمت کے حوالے سے سخت شرائط رکھی گئی ہیں۔
مذکورہ بل کے بنیادی نکات پر بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ایوان کو بتایا کہ ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 1991 کا قانون وفاق کی سطح پر موجود ہے تاہم اب 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد 'لیبر' کا شعبہ صوبائی معاملہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ 'صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبرپختونخوا نے اس حوالے سے ایکٹ میں تبدیلی کی ہے اور سندھ حکومت نے بھی متعدد قوانین بنائے ہیں، لیکن اب اس حوالے سے قانون سازی کرلی گئی ہے جیسا کہ ہم نے اسمبلی میں بل لانے سے قبل پالیسی ترتیب دینے کے بعد کابینہ میں پیش کیا تھا'۔
صوبائی اسمبلی میں بحث کے دوران متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رکن اسمبلی معین پیرزادہ اور سومیتا افضال کی جانب سے پیش کی جانے والی دو تجاویز پر بل میں معملی ترمیمی بھی کی گئی ہے۔
اس سے قبل بل پیش کرنے والے سینئر صوبائی وزیر نثار کھہوڑو نے اس کے مندرجات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ قلیل تنخواہوں پر بچوں سے مشقت کا معاملہ اب پرانہ ہوگیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم سے قبل اس معاملے کو وفاقی حکومت دیکھ رہی تھی لیکن اس پیش رفت کے بعد لیبر کا شعبہ اب صوبے کی آئینی ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے ایسا قانون متعارف کرایا ہے کہ کوئی شخص کسی معصوم بچے کی غربت کا فائدہ نہیں اٹھا سکے گا۔
انھوں نے ایک جج کے گھر ملازمت کرنے والی لڑکی طیبہ کے واقعے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ اسلام آباد میں پیش آیا ہے اور اس میں ملوث شخص جاہل نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'لالچی لوگ بچوں اور ان کے خاندانوں کی مالی مشکلات کا فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن اب ہم ایسے اقدامات کررہے ہیں کہ کوئی ان کا فائدہ حاصل نہیں کرسکے گا'۔
ایم کیو ایم کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی سید سردار احمد نے بل کو مثبت اور بروقت قرار دیا۔
پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کی نصرت سہر عباسی نے بل کی حمایت کی لیکن ساتھ ہی کہا کہ بل کی منظوری سے قبل قانون سازوں کو اسے جاننے کیلئے کچھ وقت دیا جانا چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی غزالہ سیال، ایم کیو ایم کی ہیر سوہو، پاکستان تحریک انصاف (ہپی ٹی آئی) کی ڈاکٹر سیما ضیاء، صوبائی وزیر شمیم مرتضیٰ اور دیگر نے بل کی متفقہ منظوری سے قبل اس کی حمایت کی۔
پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے مسلم لیگ نواز کے سوراتھ تھیبو نے ایوان کی توجہ شیما کرمانی کو نامعلوم افراد کی جانب سے ملنے والی قتل کی دھمکیوں پر دلوائی۔
جس پر وزیر اعلیٰ نے یقین دہانی کرائی کہ سندھ حکومت نے فنکار کے تحفظ کیلئے اقدامات اٹھائے ہیں، انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ان کی جانب سے وزارت داخلہ کو دہشت گردی کی 'نرسریاں' بند کرنے کیلئے تحریری طور پر کہہ دیا گیا ہے۔
ٹریفک کے مسائل
صوبائی اسمبلی میں توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے خرم شیرزمان اور ایم کیو ایم کے کامران اختر نے ایوان کی توجہ ٹریفک مسائل، موٹر سائیکل ریس اور ون ویلنگ کی جانب دلوائی۔
جس پر سینئر صوبائی وزیر نثار کھہوڑو کا کہنا تھا کہ شہر میں 22 ترقیاتی کام جاری ہیں جو کہ یقینی طور پر عوام کیلئے مشکلات پیدا کررہے ہیں۔
انھوں نے واضح کیا کہ ٹریفک کی روانگی کو برقرار رکھنے کیلئے حکومت پہلے سے ہی اقدمات اٹھا چکی ہے اور ان منصوبوں کی تکمیل ٹریفک کی روانی کو مزید بہتر کردے گی۔
ون ویلنگ اور موٹر سائیکل ریس کے حوالے سے نثار کھہوڑو کا کہنا تھا کہ 10 سے 12 گینگ غریب بچوں کو موٹر سائیکل ریس کیلئے اُکساتے ہیں تاکہ ان پر شرطیں لگائی جاسکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے مقامی انتظامیہ اور پولیس کی مدد سے اس گھناؤنے کام کو روکنے کیلئے اقدامات کیے ہیں اور متعدد ذمہ داروں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
لیڈی ہیلتھ رضاکاروں کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے حوالے سے ایم کیو ایم کی ناہید بیگم کی جانب سے توجہ دلاؤ نوٹس پر وزیر صحت ڈاکٹر سکندر میندھرو نے ایوان کو بتایا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کا پروگرام وفاق کی سطح پر متعارف کرایا گیا تھا لیکن اس کی صوبوں کو منتقلی کی وجہ سے اس میں کچھ تاخیر کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تاہم لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تنخواہیں جلد جاری کردی جائیں گی۔
پی پی پی کے اللہ بخش تالپور اور امتیاز شیخ کی جانب سے 100 دیہاتوں کو بجلی کی فراہمی منقطع ہونے اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ پر اٹھائے گئے پوائنٹ آف آرڈر کے جواب میں وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے وفاقی وزارت پانی و بجلی کو خط لکھ دیا گیا ہے جبکہ وفاق کو بھی اس حوالے سے شکایت درج کرائی گئی ہے۔