Dawn News Television

شائع 29 جون 2013 09:16pm

عمران فاروق کیس: برطانیہ ملزمان تک رسائی کا خواہاں

اسلام آباد: برطانوی حکام نے متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما عمران فاروق قتل کیس میں پاکستانی حکام کی زیر حراست مشتبہ افراد تک رسائی دینے مطالبہ کر دیا ہے۔

ذرائع نے ہفتے کو اس حوالے سے حال ہی میں ہونے والی نئی پیشرفت سے آگاہ کرتے ہوئے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ اعلیٰ پاکستانی حکام سے اس سلسلے میں درخواست کی گئی ہے جس کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہے۔

ایک سینئر آفیشل نے انکشاف کیا کہ معاملے کی حساسیت کی وجہ سے دونوں ہی فریقین نے اس بات کو خفیہ رکھا ہوا ہے اور پاکستانی حکومت نے فی الحال اس درخواست کا جواب نہیں دیا ہے۔

وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بھی اس حوالے سے ہونٹ سی لیے ہیں اور کافی محتاط نظر آتے ہیں جہاں انہوں نے حکومت کی جانب سے اس درخواست کو منظور یا مسترد کیے جانے کے حوالے سے ہاں یا ناں میں کوئی جواب دینے سے انکار کر دیا۔

اس سے قبل ان کے پیشرو رحمان ملک اس بات کی سختی سے تردید کر چکے ہیں کہ عمران فاروق کیس کے مشتبہ ملزمان پاکستانی حکام کی زیر حراست ہیں۔

یاد رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے سینئر رہنما عمران فاروق پر 16 ستمبر 2010 کو لندن میں گرین لین کے علاقے میں اس وقت قتل کیا گیا تھا جب وہ کام سے گھر کی طرف آ رہے تھے۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ وہ چھریوں کے وار سے ہلاک ہوئے تھے۔

حال ہی میں لندن میٹرو پولیٹن پولیس نے تفتیشی عمل کو تیز کرتے ہوئے آٹھ مشتبہ افراد کے گھروں پر چھاپے مارے تھے جبکہ اس حوالے سے ہزاروں لوگوں سے پوچھ گچھ کرنے کے ساتھ ساتھ لاکھوں کاغذات کی جانچ پڑتال بھی کی گئی تھی۔

لندن میٹرو پولیٹن پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے پوچھ گچھ نہیں کی گئی۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کچھ دن قبل ایم کیو ایم کے سربراہ نے اس تفتیشی عمل کو ان کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے حالیہ ٹیلیفونک خطاب میں کہا تھا کہ مقامی اور عالمی سطح پر میرے اعصاب توڑنے کی سازش ہو رہی ہے۔

مسلم لیگ کے رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مسلم لیگ ن کراچی یا دیگر جگہوں پر عوامی رد عمل سے بچنے کے لیے اس معاملے کو انتہائی احتیاط سے آگے لے کر چل رہی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں میٹرو پولیس نے لندن کے ایجویئر روڈ پر واقع ایم کیو ایم کے انٹرنیشنل سیکریٹریٹ کی دو روز تک تلاشی لی تھی تاہم اس حوالے سے کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی تھی۔

Read Comments