پاکستان

نوکری چھوڑ کر بچوں کو تعلیم دینے کی لگن

اپنے لیےتو سب ہی جیتے ہیں لیکن ایسے لوگ شاید لاکھوں میں ہی ہوں گے، جو دوسروں کے لیے کچھ کر دکھانے کا جذبہ رہتے ہوں۔

اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں لیکن ایسے لوگ شاید لاکھوں میں ہی ہوں گے جو نہ صرف اپنے کیرئیر بلکہ ملازمت کو چھوڑ کر دوسروں کے لیے کچھ کر دکھانے کا جذبہ رہتے ہوں۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی 26 سالہ سافٹ ویئر انجینئر ماروی سومرو بھی ان ہی میں سے ایک ہیں، جنہوں نے اپنی پرسکون اور آرام دہ زندگی کے ساتھ اپنی شاندار تنخواہ اور اچھی نوکری کو بھی ترک کرکے ایک ایسے علاقے میں جاکر بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کا ارادہ کیا، جہاں کی زندگی ایک بالکل الگ دنیا کی مانند ہے۔

ماروی سومرو نے اپنے اس خواب کو پورا کرنے کے لیے گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ کے گاؤں مسگر کا رخ کیا، جہاں وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کو آرٹ کا فن بھی سکھا رہی ہیں۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'ذرا ہٹ کے' میں گفتگو کرتے ہوئے ماروی سومرو نے بتایا کہ اگرچہ اسلام آباد کو چھوڑ کر اس گاؤں میں جانا کسی حد تک مشکل کام تھا، لیکن اپنے ملک کی خاطر انھوں نے اپنے والدین کو اس فیصلے پر راضی کیا۔

ماروی کہتی ہیں کہ انوویٹیو ایجوکیشن انسپائر پاکستان (آئی ای آئی پاکستان) کے عنوان سے شروع کیے گئے اس پروجیکٹ کا مقصد ملک میں تعلیمی معیار کو مضبوط کرنا ہے، جس سے ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل روشن ہوسکے۔

ماروی سومرو نے مسگر کے ان بچوں کو تعلیم دینے کا ارادہ کیا جو مناسب سہولیات نہ ہونے کے باعث اپنے خوابوں کو پورا نہیں کرسکتے — فوٹو بشکریہ آئی ای آئی پاکستان

ماروی سومرو نے بتایا کہ مسگر جیسے گاؤں میں بھی سرکاری اسکولز موجود ہیں، لیکن اصل مسئلہ مناسب سہولیات کے فقدان کا ہے، لہذا وہ حکومت کی مدد کرنا چاہتی ہیں تاکہ ان بچوں کا مستقبل اچھا ہوسکے جو اس ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔

انھوں نے کہا 'ہم ہر بار ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ہم خود کیا کرسکتے ہیں اور اسی بات کو سامنے رکھ کر میں نے اپنے اندر ایک سوچ پیدا کی اور موجودہ نصاب کو ہی ایک نئے طریقے سے پڑھانے کا ارادہ کیا'۔

ماروی نے بتایا کہ اس نئے طریقے سے نہ صرف بچوں کو امتحانات کے لیے اہل بنایا گیا بلکہ بچوں میں اسکول آنے کا شوق بھی پیدا ہوا۔

ماروی سومرو بچوں کو آرٹ کا فن بھی سکھاتی ہیں جس سے ان میں پڑھنے کا مزید شوق پیدا ہوتا ہے — فوٹو بشکریہ آئی ای آئی پاکستان

انھوں نے کہا کہ 'اس پروجیکٹ کے تحت آرٹ کو نصاب میں اس لیے شامل کیا گیا کیونکہ ہم آج کے دور میں اپنی ثقافت سے دور ہوتے جارہے ہیں جس کی بہت سی وجوہات ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ آج کے پاکستان میں آرٹ صرف امیر لوگوں کے لیے ہی ہے، جبکہ باقی سب اس کو بھول چکے ہیں'۔

انھوں نے بتایا کہ آرٹ یہاں کے بچوں کی نفساتی کیفیت کے لیے بھی بہت موثر ثابت ہوا، کیونکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں پر کم سن بچوں میں کسی نا کسی وجہ سے خودکشی کرنے کی شرح کافی حد تک زیادہ ہے، جو بہت ہی افسوس کی بات ہے۔

اس سوال پر کہ جب آپ مسگر گئیں تو وہاں تعلیم کی کیا صورتحال تھی اور ان بچوں تک پہنچنے میں لوگوں نے آپ کی کس طرح مدد کی ؟ انھوں نے بتایا کہ یہ گاؤں پاکستان کے باقی علاقوں سے کافی دور دراز مقام پر واقع ہے، لیکن وہاں کے لوگوں میں مہمان نوازی کی ایسی روایت موجود ہے، جو ہمارے بڑے شہروں میں رہنے والے لوگوں میں اب ختم ہوچکی ہے۔

انھوں نے کہا کہ 'جب میں نے وہاں کے ایک سرکاری اسکول کے پرنسپل سے بات کی تو انھوں نے میرے اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے بہت مدد کی اور مجھے موقع فراہم کیا کہ میں وہاں پر کام کرسکوں'۔

ماروی سومرو نے کہا 'اللہ کا شکر ہے کہ وہاں کی کمیونٹی نے کھل کر میری حمایت کی اور میرے کام کو خوش آمدید کہا'۔

انھوں نے بتایا کہ وہاں کے اسکولوں میں جو بنیادی مسئلہ انہیں نظر آیا وہ یہ تھا کہ ہر اسکول میں بچوں کا نام درج ہے، لیکن اساتذہ صرف چار ہیں، تاہم ایک اچھی بات جو انھیں محسوس ہوئی وہ یہ تھی کہ اُس علاقے کے بچوں میں علم حاصل کرنے کا بہت جذبہ ہے اور اگر انہیں مناسب سہولیات ملیں تو وہ آگئے بڑھ کر ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔

ماروی سومرو کا مقصد ملک کے دور دراز علاقوں میں تعلیم کے معیار کو بہتر کرنے کے ساتھ حکومت کی اس سلسلے میں مدد کرنا ہے — فوٹو بشکریہ آئی ای آئی پاکستان

انھوں نے کہا کہ 'اس وقت وہ جس گاؤں میں بچوں کو پڑھانے جاتی ہیں وہاں کے ایک سرکاری اسکول کی انتظامیہ سے جب انھوں نے سوال کیا کہ آپ کو کن کن وسائل کی کمی کا سامنا ہے تو پرنسپل نے بتایا کہ سال شروع ہوئے کافی وقت ہوچکا، لیکن نصاب کی کتابیں ابھی تک اسکول میں دستیاب نہیں ہیں، لہذا اس بات سے وہاں کے حالات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بار وہ کچھ ایسی کتابیں ساتھ لے کر جارہی ہیں جن کی مدد سے ان حالات میں بھی بچوں کو پڑھایا جاسکتا ہے، اگر وہاں کتابیں نہ ہوں۔

ماروی نے یہ بھی بتایا کہ نائن الیون سانحے کے بعد سے مسگر میں سیاحوں نے آنا بند کردیا، لیکن میرے جانے سے ان بچوں کی کافی حوصلہ افزائی ہوئی اور انہیں نئے نئے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا۔

جب ماروی سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ نے ان بچوں کو آرٹ کی تعلیم دینے کے لیے رضاکارانہ طور پر لوگوں کو کس طرح اس علاقے میں آنے پر قائل کیا؟ تو انھوں نے بتایا کہ 'اس کام میں میرے دوست بھی میرے ساتھ تھے، کچھ لوگوں نے مجھے نوکری چھوڑنے سے منع کیا، لیکن میرا یقین تھا کہ اگر اپنے ملک کی بہتری کے لیے جب کوئی کام کرنا ہے، تو یہ قدم اٹھانا پڑے گا'۔

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ آپ نے کس چیز سے متاثر ہوکر اس کام کو شروع کرنے کا فیصلہ کیا؟ تو ماروی نے کہا کہ یہ ان کا ذاتی خیال تھا جو خود اپنے گھر کے ماحول سے ان کے ذہن میں آیا۔

انھوں نے بتایا کہ 'میری والدہ بھی میری طرح غریب بچوں کی تعلیم کے لیے ان کی مدد کرتی تھیں اور ان کے اسکول میں داخلے کروایا کرتی تھیں تو میرے دل میں بھی یہی بات تھی کہ تعلیم ایک ایسی چیز ہے جو بہت ضروری ہے'۔

ماروی سومرو نے بتایا کہ وہ تین بہنیں ہیں، 'جب سے میں نے یہ کام شروع کیا میری دونوں بہنیں مجھے بہت یاد کرتی ہیں، لیکن زندگی نے مجھے کچھ ایسا کرنے کا موقع دیا ہے جہاں ہم مل تو نہیں سکتے، لیکن میری فیملی کے لیے میرے احساسات آج بھی وہی ہیں'۔

'مسگر کے بچے میرا خاندان ہیں'

ماروی سومرو اپنی پوری زندگی ان بچوں کی تعلیم اور ان کے مستقبل کے لیے وقف کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں — فوٹو بشکریہ آئی ای آئی پاکستان

اپنی مستقبل کی حکمتِ عملی کے بارے میں بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'میں چاہتی ہوں کہ ہنزہ کے اور بھی اس طرح کے علاقوں میں جاؤں جہاں پر میں یہ کام کرسکوں تاکہ جب میں یہاں سے واپس جاؤں تو یہ ادارے اسی طرح سے ان بچوں میں تعلیم کو عام کرسکیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'مسگر میں، میں نے 4 ماہ تک کام کیا اور وہاں کے بچے میرے خاندان کی طرح ہیں، جنہیں میں کتابیں اور تمام ضروری چیزیں بھیجواتی ہوں اور میرا ارادہ ہے کہ میں ان بچوں کو اعلیٰ تعلیم بھی فراہم کروں گی'۔

ماروی نے بتایا کہ 'مستقبل میں ہم ان بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے اسلام آباد اور کراچی بھی لاسکتے ہیں تاکہ وہاں کے تعلیمی اداروں سے تعاون کرکے ان کا مستقبل محفوظ بنایا جاسکے'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی اب ان بچوں کے مستقبل کے لیے وقف کریں گی جو اس ملک کا اہم اثاثہ ہیں، جو اب مجھے مجبور کررہے ہیں کہ مجھے ان کے لیے کام کرنا ہے۔