انسدادِ تشدد مرکز: خواتین کے تحفظ کیلئے مثالی قدم
اگرچہ پاکستان میں ہر سال خواتین پر تشدد کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، لیکن پنجاب حکومت کی جانب سے حال ہی میں ملتان میں جنوبی ایشیاء کے پہلے انسداد تشدد مرکز برائے خواتین کا افتتاح نہ صرف خواتین پر ذہنی اور جسمانی تشدد کی روک تھام کیلئے ایک مثالی قدم بلکہ ان مثاترہ خواتین کیلئے امید کی ایک نئی کرن بھی ہے۔
گذشتہ سال فروری میں پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والے حقوقِ نسواں بل کے تحت ملتان میں قائم ہونے والا یہ پہلا مرکز ہے، جس کا مقصد گھریلو تشدد، معاشی استحصال، جذباتی و نفسیاتی تشدد، بدکلامی اور سائبر کرائمز جیسے واقعات میں متاثر ہونے والی خواتین کو ایک ہی چھت کے نیچے ہر طرح کا تحفظ اور سہولیات فراہم کرنا ہے۔
اس مرکز کو قائم ہوئے ابھی صرف دو ہفتے ہی ہوئے ہیں اور اس دوران یہاں پر صوبے پھر سے 62 کے قریب کیسز رجسٹرڈ ہوئے، جن میں سے 85 فیصد کو خوش اسلوبی کے ساتھ نمٹا دیا گیا، جبکہ ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنایا گیا کہ اگر شکایت کندہ خواتین کے ساتھ مرد حضرات دوبارہ اس قسم کے فعل کے مرتکب ہوئے تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
خواتین پر تشدد کے خاتمے کیلئے قائم کیے گئے اس مرکز کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ یہاں ایک اسپیشل جج کے ساتھ خواتین پولیس اہلکار بھی موجود ہیں جن کی مدد سے موصول ہونے والی شکایات کا قانونی انداز میں جائزہ لیا جاتا ہے۔
انسپکٹر نمرین منیر بھی اسی سینٹر میں بطور ایس ایچ او اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہیں، جنہوں نے ڈان نیوز کے پروگرام 'ذرا ہٹ کے' میں گفتگو کے دوران بتایا کہ یہاں آنے والی شکایات سب پہلے پولیس کو موصول ہوتی ہیں اور کوشش یہی ہوتی ہے کسی نا کسی طرح صلح کروائی جائے۔
تاہم، انھوں نے بتایا کہ بہت سے کیسز ایسے ہوتے ہیں جہاں خواتیں کافی زیادہ تشدد کا شکار ہوتی ہیں اور یہاں پھر ہم مجبور ہو کر کوئی قانونی راستہ استعمال کرتے ہیں۔
انسپکٹر نمرین منیر نے بتایا کہ ان کی سب سے پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ وہ متاثرہ خواتین کے مسائل کو جلد از جلد حل کرکے انہیں واپس ان کے گھر بھیج سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'یہاں آنے والی خواتین کافی مطمئن نظر آتی ہیں اور ایک محفوظ ماحول میں ہر مسئلہ ہم سے شیئر کرتی ہیں'۔
انھوں نے کہا، اس مرکز میں آنے والی خواتین اگر تشدد کی وجہ سے زخمی ہوں تو انھیں ہسپتال جانے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی، کیونکہ یہاں پر ہر طرح کی طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں، لیکن اگر کوئی خاتون شدید زخمی ہے تو ہم خود اسے نشتر ہسپتال لے کر جاتے ہیں۔
اس مرکز کو ملتان میں قائم کرنے کا ایک بنیادی مقصد یہ ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے میں جنوبی پنجاب، خواتین پر تشدد کے علاوہ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں بھی سرِ فہرست رہا ہے۔
اس مرکز کی ایک کاؤنسلنگ افسر سلوت شفیع نے جنوبی پنجاب میں خواتین پر تشدد کے واقعات پر ایک ریسرچ بھی کی، جن کا کہنا ہے کہ یہاں خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات ایک مخصوص سیزن میں ہوتے ہیں، جب ملتان، مظفرگڑھ، بہاولپور اور لودھراں میں گرمیوں کے موسم میں کپاس کی کاشت زیادہ ہوتی ہے اور اس دوران یہاں گھروں میں تیزاب استعمال کیا جاتا ہے۔
سلوت شفیع نے بتایا کہ باعث اوقات مرد حضرات غصے کی حالت میں اسی تیزاب کے ذریعے خواتین کو نشانہ بناتے ہیں جو یہاں اس قسم کے واقعات کی بنیادی وجہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ یہاں ضلع راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کے علاقوں میں وٹے سٹے کی شادیوں اور زمین کے تنازعات میں خواتین پر تشدد کے واقعات کی شرح بھی زیادہ دیکھنے میں آتی ہے۔
اس مرکز میں آنے والی خواتین کے ناصرف مسائل کو سن کر حل تلاش کیا جاتا ہے، بلکہ تشدد سے پیدا ہونی والے نفسیاتی امراض کا بھی علاج اسی شیلٹر کے نیچے ممکن ہے۔
عنبرین اسلم ملتان میں قائم اس انسدادِ تشدد مرکز میں ایک ماہر تفسیات ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ یہاں آنے والی متاثرہ خواتین کی نفسیاتی کیفیت کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ ان کے احساسات کو بھی جاننے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ اس بات کا بھی اندازہ لگایا جاسکے کہ اصل میں خاتون کے ساتھ ہوا کیا ہے۔
عنبرین نے بتایا 'ہم یہاں پر خواتین کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی فراہم کرتے ہیں تاکہ ان میں خود اعتمادی پیدا ہو'۔
انھوں نے بتایا کہ کئی مرتبہ ایسی خواتین بھی آتی ہیں جو تشدد کی وجہ سے گفتگو کرنے کی صلاحیت کھو دیتی ہیں اور پھر ہم انہیں ذہنی سکون کے ساتھ کچھ ایسا ماحول فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ اُس حالت سے باہر آکر ہمیں کچھ بتا سکیں۔
معاشرے میں رونما ہونے والے ان واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے یہاں ایسی روایات نے جنم لے لیا ہے جس میں مرد ہمیشہ خواتین سے مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں اور وہ صرف یہی چاہتے ہیں کہ خاتون اگر ملازمت بھی کرے تو وہ زیادہ وقت اپنے گھر کو دے۔
نفیسہ جبین بھی اس مرکز میں ایک ماہر نفسیات ہیں جن کا کہنا تھا کہ آج کے دور میں ہمارے خاندانوں میں ہر طرف ہی تشدد دیکھنے میں آرہا ہے، کیونکہ ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے کہ گھر کے چھوٹے کسی کے آگے اپنی بات نہیں کہہ سکتے۔
انھوں نے حکومت کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں اس طرح کے واقعات کو ختم کرنے کیلئے یہ مرکز بہت مؤثر انداز میں کام کررہا ہے۔
پروگرام میں پنجاب حکومت کے اسپیشل مانیٹرنگ یونٹ کے سینئر رکن سلمان صوفی سے بھی بات کی گئی جنھوں نے کہا کہ اس مرکز کے قیام میں تاخیر کی وجہ یہ تھی کہ یہ پورے پنجاب کا ہیڈ کوارٹر ہے، جبکہ ابھی اس طرح کے چھوٹے مراکز کو قائم کرنا باقی ہے۔
سلمان صوفی نے کہا کہ صوبے میں باقی مراکز پہلے سے تیار شدہ عمارتوں میں ہی ہوں گے جن تزئین و آرائش کی جائے گی۔
انھوں نے امید ظاہر کی کہ لاہور اور فیصل آباد میں 6 سے 7 ماہ میں ان مراکز کو بھی آپریشنل بنا دیا جائے گا اور 2 سے تین سال کے عرصے میں پنجاب کے کل 36 اضلاع میں یہ سینٹرز اپنا کام شروع کردیں گے۔
اس سوال پر کہ موجودہ حکومت کے جانے کے بعد کیا یہ پروجیکٹ بھی ماضی کا حصہ بن جائے گا؟ سلمان صوفی نے جواب دیا کہ یہ ایک بڑا مسئلہ رہا ہے اور اسی کو حل کرنے کیلئے ایک بل کے ذریعے صوبائی اسمبلی میں قانون سازی کی گئی تاکہ یہ مراکز حکومتوں کے تبدیل ہونے پر بھی اپنا کام کرتے رہیں۔
انھوں نے بتایا کہ اس قانون میں یہ بات شامل ہے کہ یہ مراکز کسی اور ادارے میں نا تو ضم ہوسکتے ہیں اور نا ہی کسی حکومت کو اس پروجیکٹ میں مداخلت کرنے کا اختیار ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم اس بل سے عورت کیلئے انصاف کا ایسا نظام قائم کرنا چاہتے ہیں جو ہمیشہ قائم رہے'۔
افتتاح کے بعد سے اس مرکز کی کارکردگی کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں سلمان صوفی نے کہا کہ جس دن یہاں کام شروع ہوا تو اس کے 2 گھنٹے کے بعد ہی پہلے تین کیسز ہمیں موصول ہوئے اور ایک ہفتے میں ان شکایات کی تعداد 41 سے تجاوز کرگئی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہاں اب تک جتنی بھی شکایات آئیں ہم نے ان معاملات کو حل کیا اور ایک شکایت پر مقدمہ بھی درج کیا جاچکا ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ اب جب کہ یہ مرکز کام کرنے لگا ہے تو ہم سمجھتے ہیں لوگ ہم سے رابطہ کرکے اپنے مسائل ضرور شیئر کریں گے۔
اس سوال پر کہ اگر کسی دور دراز علاقے سے کوئی زخمی خاتون آپ کے پاس آئے تو وہ اپنی شکایت کیسے درج کروا سکتی ہے؟ جس پر سلمان صوفی نے بتایا کہ اس مرکز میں ویمن پولیس موجود ہے جو اس علاقے کے متعلقہ تھانے سے خود رابطہ کرتی ہے اور یوں اس طرح کی صورتحال میں مقدمہ درج کیا جاسکتا ہے۔
خیال رہے کہ پنجاب اسمبلی نے گذشتہ سال 24 فروری کو تحفظ خواتین بل برائے 2015 متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔