Dawn News Television

شائع 10 اپريل 2017 07:10pm

آدھے سر کا درد ذہنی امراض کا خطرہ بڑھائے

آدھے سر کا درد خوشگوار تو کبھی نہیں ہوتا مگر اب طبی سائنس کا کہنا ہے کہ یہ ذہنی صحت کو ہمارے اندازوں سے بھی زیادہ نقصان پہنچانے کا باعث بنتا ہے۔

یہ بات کینیڈا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

ٹورنٹو یونیورسٹی کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جن لوگوں کو اکثر آدھے سر کا درد رہتا ہے، ان ذہنی تشویش اور بے چینی کے عارضے کا خطرہ تین گنا بڑھ جاتا ہے۔

اس تحقیق کے دوران 22 سو آدھے سر کے درد کے شکار افراد اور بیس ہزار اس سے محفوظ لوگوں کی ذہنی صحت کا جائزہ لیا گیا۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں کو مائیگرین کا درد شکار نہیں کرتا ان میں ذہنی امراض کا امکان بہت کم ہوتا ہے جبکہ یہ شرح آدھے سر کے درد کے شکار افراد میں چھ فیصد ہوتی ہے۔

خواتین کے مقابلے میں یہ درد مردوں کی ذہنی صحت کو دوگنا زیادہ متاثر کتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ ہم تحقیق کے نتائج پر حیران رہ گئے کیونکہ عام طور پر خواتین مردوں کے مقابلے میں ذہنی عارضوں کا شکار زیادہ ہوتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کی ممکنہ وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ خواتین کے مقابلے میں مرد آدھے سر کے درد پر ادویات کا استعمال کم کرتے ہیں جس کے نتیجے میں اس تکلیف کی شدت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور ذہنی عارضے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

اگرچہ آدھے سر کے درد اور ذہنی صحت کے مسائل کو عام طور پر اکھٹے نہیں لیا جاتا ہے مگر اس تحقیق میں ان دونوں کے درمیان کئی لنکس ثابت ہوئے۔

تحقیق کے مطابق مائیگرین کے شکار افراد میں ڈپریشن کا خطرہ دوگنا زیادہ وہتا ہے جبکہ وہ کھلی جگہوں کے خوف یا فوبیا اور ذہنی طور پر جلد گھبراہٹ کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔

یہ تحقیق طبی جریدے جرنل Headache میں شائع ہوئی۔

اس سے قبل گزشتہ سال امریکا کے ہاورڈ میڈیکل اسکول اور جرمنی کے انسٹیٹوٹ آف پبلک ہیلتھ کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ آدھے سر کا درد دل کے امراض اور قبل از وقت موت کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔

25 سے 42 سال کی عمر کی ایک لاکھ سے زائد خواتین پر دس سال تک ہونے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ مائیگرین کے شکار افراد میں اس عرصے کے دوران موت کا خطرہ 50 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ نتائج سے اس بات کے مزید شواہد ملتے ہیں کہ آدھے سر کے درد کو خطرے کو خون کی شریانوں سے متعلقہ امراض کے حوالے سے خطرے کی ایک اہم علامت سمجھا جانا چاہئے، خصوصاً خواتین میں، تاہم اس کا اطلاق مردوں پر بھی ہوتا ہے۔

Read Comments