پاکستان

'کچرا دو، تعلیم عام کرو'

کراچی میں ایک اسکول ایسا بھی ہےجو پرانی اشیاء اور کچرا فروخت کرکے بچوں کو تعلیم کےزیور سے آراستہ کرنےکےمشن پر گامزن ہے۔

پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں حکومت کی عدم توجہ کے باعث سرکاری سطح پر تعلیم کا معیار انتہائی پست حالت کا شکار ہے، جبکہ نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم کے نام پر کاروبار کا بازار گرم دکھائی دیتا ہے، وہیں ایک اسکول ایسا بھی ہے جو گھروں میں استعمال ہونے والی پرانی اشیاء اور کچرا فروخت کرکے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے مشن پر گامزن ہے۔

یہ اسکول کراچی کے علاقے سرجانی ٹاؤن کے قریب شہر کی سب سے بڑی کچرا کنڈی جام چاکرو کے بیچوں بیچ واقع ہے، جو ایسے علاقے میں بھی زندگی کی شمع روشن کیے ہوئے ہے، جہاں پر دور دور تک صرف کچرے کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔

ایک غیر سرکاری تنظیم 'الخیر ویلفئیر سوسائٹی' کے تحت چلنے والے اس اسکول میں بچوں کو نہ صرف مفت تعلیم فراہم جارہی ہے، بلکہ انہیں سلائی کڑھائی اور جدید دور کی مناسبت سے کمپیوٹر سے متعلق کورسز بھی کروائے جاتے ہیں اور ساتھ ہی ایک خصوصی کلاس اُن افراد کیلئے بنائی گئی ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کرسکے، اس طرح یہ پیغام بھی عام کیا جارہا ہے کہ تعلیم کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔

علاقے میں اس اسکول کے قیام سے بچوں میں پڑھنے کا شوق پیدا ہوا — فوٹو بشکریہ ادارہ الخیر فیس بک پیج

اسکول کی منفرد بات یہ ہے کہ یہاں مختلف ڈپارٹمنٹس قائم ہیں، جن میں ایک ایسا کمرہ بھی موجود ہے، جہاں اسکول کے بچوں کے یونیفارم کی سلائی اور تیاری کا کام کیا جاتا ہے۔

1987 میں قائم ہونے والی اس تنظیم کے تحت جب پہلے اسکول نے اپنا کام شروع کیا تو نا تو کوئی عمارت تھی اور نا ہی دیوار، لیکن جذبے اور لگن کی بدولت آج ادارہ الخیر کے کل 7 کیمپس ہیں، جبکہ ایک کالج بھی موجود ہے، جہاں پر طلبہ مفت تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'ذرا ہٹ کے' کی ٹیم نے اسی اسکول کا دورہ کیا اور وہاں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے ساتھ ساتھ کلاس رومز میں موجود اساتذہ سے بھی اس اسکول کے بارے میں ان کے خیالات جاننے کی کوشش کی۔

اسکول میں زیر تعلیم بی ایس مائیکرو بائیولوجی کی ایک طالبہ مونا نے بتایا کہ وہ ایک پسماندہ گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کے والد بھی تعلیم یافتہ نہیں، لیکن علم کی لگن کے باعث وہ یہاں آئیں اور انٹر کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آگے بھی تعلیم کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اسکول کے دورے کے دوران ایک اور منفرد چیز یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ اس اسکول کی عمارت میں ایک سپر اسٹور بھی قائم ہے جہاں ہر قسم کی اشیاء فروخت کرکے حاصل ہونے والی آمدنی کو اسکول کے اخراجات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

پروگرام کے دوران ادارہ الخیر ویلفیئر سوسائٹی کے بانی محمد مظاہر شیخ نے بتایا کہ ان کے پروجیکٹ کا مقصد معاشرے میں تعلیم کو عام کرنا ہے، کیونکہ جب ہم فلاحی کام کی بات کرتے ہیں تو اس میں پہلا اور اولین درجہ تعلیم ہی ہے۔

انھوں نے کہا، 'اگرچہ معاشرے کے دو رخ ہیں اور کچھ لوگ اچھا اور کچھ برا سوچتے ہیں، لیکن جو لوگ بھلائی کا قدم بڑھاتے ہیں ان ہی میں سے ایک میں بھی ہوں اور یوں ہم سب نے مل کر معاشرے سے تفریق کو ختم کرنا ہے کیونکہ تعلیم سے ہی قوموں کی تقدیر بدل سکتی ہے'۔

اس سوال پر کہ آپ کو اس طرح کا تعلیمی ادارہ بنانے کا خیال کیسے آیا؟ مظاہر شیخ کا کہنا تھا کہ وہ شروع سے ہی لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ ان کی عادت بن گئی، لیکن پھر سوچا کہ لوگوں کی ذہنی حالت کو تبدیل کرنا ہوگا اور پھر اس کام کے لیے تعلیم کو عام کرنے کا ارادہ کیا۔

محمد مظاہر شیخ نے بتایا کہ 'جب آج سے 30 ساتھ پہلے میں یہاں آیا تھا تو میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا، میں تین یا چار بچوں کو کھلے آسمان تلے بٹھا کر انہیں ان کا نام لکھنا سکھاتا تھا اور پھر آہستہ آہستہ پیار و محبت سے بچوں میں پڑھنے کا شوق پیدا ہوا اور یوں یہ تعداد بڑھتی چلی گئی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جس دور میں اسکول کا قیام عمل میں آیا تو اس علاقے کا کوئی بچہ اسکول نہیں جاتا تھا اور وہ غلط سرگرمیوں میں بھی ملوث تھے، لیکن ان 30 سالوں میں زمین و آسمان کا فرق دیکھنے میں آیا'۔

اس اسکول میں وہ بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں،جنہوں نے غربت کے باعث کم عمری میں ہی محنت مزدوری شروع کردی۔ — فوٹو بشکریہ ادارہ الخیر فیس بک پیج

انھوں نے بتایا 'چونکہ میرا مقصد غریب گھروں کے ان بچوں کو تعلیم دینا تھا جنہوں نے اسکول نہیں دیکھا اور وہ غریبی کے باعث کم عمری میں مزدوری کرکے اپنے گھر کی کفالت کرتے ہیں، لہذا ان بچوں کو یہاں پر مفت تعلیم کا موقع بھی ملا اور پھر وہ شام کے اوقات میں کام بھی کرسکتے ہیں اور اگر وہ بہت زیادہ مالی پریشانی کا شکار ہوں تو ہم ان کی خود مدد بھی کرتے ہیں'۔

محمد مظاہر شیخ نے کہا کہ 'عام طور پر اس علاقے کی کچی آبادیوں میں مقیم لوگ اپنے بچوں کو بچپن سے مزوری کرنے کا عادی بنا دیتے ہیں، لیکن جب سے یہ اسکول قائم ہوا ہے تو بچوں میں پڑھائی کی لگن پیدا ہوئی، جس سے وہ بھی دوسرے بچوں کی طرح اپنا مستقبل بنا سکتے ہیں'۔

انھوں نے بتایا کہ وہ بچوں کے والدین کو ذہنی طور یہ بات سمجھاتے ہیں کہ اگر کم عمری میں ان کا بچہ کام کرے گا تو وہ 50 سال تک وہی کماتا رہے گا جو شروع دن سے کما رہا ہے، لہذا اسے اپنا کیریئر بنانے کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے۔

کچرے سے تعلیم کا فروغ کیسے؟

اس سوال پر کہ آپ کے اس مقصد میں کچرے کا استعمال کیوں کیا گیا اور اس کا تعلیم سے کیا واسطہ ہے؟ محمد مظاہر شیخ نے بتایا کہ چونکہ لوگ برسوں کی پرانی چیزیں اپنے گھر میں محفوظ رکھتے ہیں تو 'کچرا دو اور تعلیم عام کرو' کے پیغام سے لوگ اب پرانی چیزیں ہمیں دیتے ہیں، جن کو فروخت کرکے ہم اس اسکول کو چلا رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ اس میں وہ کچرا بھی شامل ہے جو روزانہ کی بنیاد پر گھروں میں جمع ہوتا ہے اور یوں اس میں کاغذ اور گتے کو الگ کرنے کے بعد اسے فروخت کرکے ہم آمدنی حاصل کرتے ہیں۔

الخیر ویلفئیر سوسائٹی کی ٹیم—فوٹو بشکریہ ادارہ الخیر فیس بک پیج

انھوں نے یہ بھی کہا کہ خود ان کے بچے بھی آگے چل کر اس سفر کو جاری رکھنے کے لیے 20 فیصد مالی مدد کیا کریں گے تاکہ ہم تعلیم کو مزید وسیع کرسکیں۔

اس اسکول میں محمد مظاہر شیخ کی اہلیہ تسنیم کوثر بھی بطور ہیڈ آف آپریشنز کام کررہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر ایسے کیسز سامنے آتے ہیں جن میں والد سے زیادہ والدہ کو اپنے بچوں کو تعلیم دینے کی فکر لاحق ہوتی ہے اور اسی لیے وہ اس اسکول میں انہیں بلا کر بچوں کو اسکول بھیجنے پر قائل کرتی ہیں۔

انھوں نے مزید بتایا کہ 'کچھ والدین تو اسکول آجاتے ہیں، لیکن کچھ کو وہ گھر گھر جاکر یہ پیغام دیتی ہیں اور انہیں بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے اسکول بیھجنے پر راضی کیا جاتا ہے'۔