مفتی صاحب، یہ کیا بات ہوئی؟ - 2
یہ اس بلاگ کا دوسرا حصّہ ہے، پہلے حصّے کے لیۓ یہاں کلک کریں
مفتی صاحب نے مضمون کے دوسرے حصے میں بیان کیا کہ؛
’جنگ کے بعد پاکستانی فوج کی پوری دنیا میں وہ عزت بڑھی کہ اس کی طاقت اور مہارت کا لوہا مان لیا گیا۔ سب سے بڑی طاقت ان کے ایمان کی طاقت تھی۔ اس وجہ سے پوری قوم کو اپنی مومن فوج سے ہمیشہ محبت رہی ہے۔ پاکستانی سائنسدانوں نے ایٹم بم بنا کر پوری مسلم امّہ کی طرف سے فرض کفایہ ادا کیا ہے۔‘
کہتے ہیں کہ محبت بہت خطرناک جذبہ ہوتا ہے اور پاکستانی عوام کو فوج سے محبت کے باعث بہت کچھ جھیلنا پڑا ہے۔
آخر ہماری فوج نے آج تک اسلام آباد کے علاوہ فتح ہی کیا کیا ہے؟ بقول شاعر عباس تابش؛
’میں محبت کو زندگی سمجھا، اس محبت نے مار ڈالا مجھے‘۔
کچھ ایسا ہی سلوک ہمارے جری جوانوں نے ہمارے ساتھ کیا اور ملک بھر میں پھیلی عسکری کالونیاں اور ڈیفنس کے علاقے اسی محبت کی نشانیاں تو ہیں۔
یہ ایٹمی بم والے فرض کفایہ کی خبر ملنے پر ہم نے قرآن اور حدیث کے تراجم اور تفاسیر کھنگال ڈالے مگر ہمیں ایسا کوئی واقعہ یا حکم نہیں ملا کہ اغیار کی ٹیکنالوجی چوری کر کے جوہری ہتھیار بنانا کسی طرح سے فرض ہے۔
مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ؛
’پاکستان کے ابتدائی دور میں یہاں فرقہ واریت نہیں تھی۔ دشمن عناصر کی سازشوں کا بڑا حصہ یہ بھی ہے کہ ہمیں آپس میں لڑایا جائے۔‘
مفتی صاحب بالکل درست فرماتے ہیں کہ فرقہ واریت دشمن عناصر کی سازش کا نتیجہ ہے۔
یہ دشمن عناصر ہی تھے جن کے اصرار پر بانیء پاکستان محمد علی جناح کے دو جنازے ہوئے تھے، ایک شیعہ طریقے سے اور ایک سنی طریقے سے۔
یہ دشمن عناصر ہی تھے جنہوں نے 80 اور 90 کی دہائی میں جھنگ شہر میں اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا۔ یہ دشمن عناصر ہی تھے جنہوں نے پارہ چنار کی وادیوں کو طوری شیعہ قبائل کے خون سے رنگا-
یہ دشمن عناصر ہی تھے جو سنی علماء کو نشانہ بناتے رہے، یا آج کل کسی بھی ہزارہ نظر آنے والے شخص کو دوسرے جہاں پہنچا دیتے ہیں۔
مفتی صاحب نے شاید شیخ احمد سرہندی عرف مجدد الف ثانی کی پندرھویں صدی میں لکھی گئی کتاب ’رد روافض‘ نہیں دیکھی، یا انہوں نے شاہ ولی اللہ کی تحریروں کا بغور مطالعہ نہیں کیا اور شائد انکی نظر 1986 میں منظور نعمانی کے مرتب کردہ فتاویٰ پر بھی نہیں پڑی ورنہ و ہ ایسی بات نہ کہتے۔
اس کے علاوہ اہل سنت کے آپس میں مسائل پر جتنی کتب موجود ہیں، اتنی شائد ہی کسی ہندو یا عیسائی یا یہودی نے لکھی ہوں۔
مفتی صاحب اسی موضوع پر مزید روشنی ان الفاظ میں ڈالتے ہیں؛
”جو طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کی دشمن ہیں، ان کی نظر میں سب سے زیادہ کھٹکنے والا ملک پاکستان ہے۔ انہوں نے اکثر سازشوں کا مرکز پاکستان کو بنایا ہوا ہے، اُن کا میڈیا پاکستان کو بدنام کرنے میں کثر نہیں چھوڑتا، پاکستان کی معاشی صورت حال کو تباہ کرنے کی کوشش میں انہوں نے کوئی کمی نہیں کی اور یہاں سازشوں کا جال پھیلا کر مسلمانوں کو آپس میں لڑا رہے ہیں۔“
مفتی صاحب سے کوئی پوچھے کہ بھائی یہاں ایسی کون سی دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں جو دشمن ہم سے حسد کر کر کے مرے جا رہے ہیں؟
پاکستان کی تخلیق کے وقت سے اس طرز کی باتیں کی جا رہی ہیں لیکن آج تک کوئی ان غیر مرئی دشمنوں کا سراغ نہیں لگا سکا جو دن رات پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔
ایسا ملک جس کا ایک بڑا حصّہ بارہ بارہ گھنٹے، بجلی کی نعمت سے محروم رہتا ہے، اس کو بیرونی دشمنوں کی کیا ضرورت ہے؟
یہی فوج جس کی شان میں مفتی صاحب رطب السان ہیں، واپڈا کی سب سے بڑی نا دہندہ ہے۔ کیا یہ بھی اسلام کے دشمنوں کی سازش ہے؟
ملک میں پچھلے چالیس برس کے دوران ستاسی کھرب کے قرضے معاف کیے جا چکے ہیں، کیا اس معاشی بدعنوانی میں غیروں کا ہاتھ ہے؟
ملک میں بجلی اور تیل کی قیمت آج بھی بین الاقوامی شرح سے کم ہے اور ہر سال اربوں روپے اس مد میں حکومت خر چ کرتی ہے- کیا اس میں بھی غیروں کا قصور ہے؟
پاکستان کی تاجر برادری، تبلیغی جماعت اور لشکر طیبہ کو چندہ دیتے ہوئے خوش ہے لیکن سرکار کا ٹیکس دیتے وقت جان جاتی ہے۔ یہ بھی کوئی بیرونی سازش ہی ہو گی۔
سوئس بنکوں میں پاکستانی شہریوں نے جو نو ہزار دو سو کروڑ روپے رکھے ہوئے ہیں، یہ بھی کوئی بیرونی سازش ہی ہو گی۔ فارن پالیسی اخبار نے 2013 میں ناکام ریاستوں کی جو فہرست تیار کی ہے، اس میں پاکستان تیرھویں (13th) نمبر پر ہے۔ اس کو البتہ آپ کفار کی سازش تصور کر سکتے ہیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان میں آج تک جتنے بڑے ترقیاتی کام ہوئے، جیسے سٹیل مل کی تعمیر، یا منگلا اور تربیلا ڈیم کی تعمیر، یہ سب انہی کافروں ہی کی امداد کے باعث ہو سکے ہیں۔
جوش خطابت میں مفتی صاحب نے اقلیتوں کو بھی اپنے افکار کا نشانہ بنایا ہے۔ ملاحضہ کریں؛
"دو قومی نظریے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مسلمان دوسری قوموں سے الگ تھلگ رہ کر زندگی گزاریں بلکہ ہمیں تو قرآن و سنت نے یہ تعلیم دی ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ ہمیشہ خیرخواہی اور حسن سلوک کا معاملہ کرو- تجارتی وسیاسی معاملات میں جائز اور معقول حد تک باہمی تعاون اور صلح جوئی سے کام لو- معاہدات اور عدل و انصاف کی پابندی کرو بلکہ جو غیر مسلم ہمارے ملک کے باشندے ہیں، ان کی جان، مال، عزت کی حفاظت، یہاں کی حکومت اور مسلم معاشرے کی قانونی ذمہ داری ہے۔"
مفتی صاحب کی رائے سے ہمیں ذرّہ برابر بھی اختلاف نہیں اور اسلام کی تعلیمات کو ان سے بہتر کون جانتا ہے۔ قول و فعل میں تضاد پر البتہ کچھ بات ہونی چاہیے۔
مفتی صاحب غیر مسلموں کے حقوق کی تو بات کرتے ہیں لیکن جب شانتی نگر، گوجرہ اور جوزف کالونی کو سپرد خاک کیا جا رہا تھا، مفتی صاحب کدھر تھے؟
توہین کے قانون میں قانونی سقم کے باعث جو سینکڑوں غیر مسلم جیلوں میں موجود ہیں، مفتی صاحب ان کی کیا مدد کر رہے ہیں؟
دو بے گناہ عیسائیوں کو توہین رسالت کے جھوٹے مقدمے پر بری کرنے والے بہادر جج عارف اقبال بھٹی کو لاہور ہائی کورٹ میں قتل کیا گیا تو مفتی صاحب کے حقوق کہاں تھے؟
ممتاز قادری کو سزا سنانے والا جج، آج اپنی جان کو خطرے کے باعث ملک سے باہر ہے، کیا یہ سب بھی غیروں کا کیا دھرا ہے؟
آخر میں مفتی صاحب نے مسلمانوں کی درخشاں تاریخ پر یوں نظر ڈالی ہے؛
’اسلام نے مسلمانوں کی پھوٹ کو کبھی برداشت نہیں کیا‘۔
جناب مؤدبانہ گزارش ہے کہ صرف عباسی دور کے دوران سینتیس (37) خلفاء میں سے چودہ کو قتل کیا گیا تھا۔ آپ اس طرح کی تاریخ پڑھانے سے گریز ہی کریں تو بہتر ہے۔
واضح رہے کہ مفتی رفیع صاحب، مفتی تقی عثمانی کے برادر محترم ہیں اور ان حضرات نے جس طرح سودی نظام پر قائم کردہ بینکاری نظام کو ختنوں کے بغیر اسلام میں داخل کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے، وہ کسی طور قابل قدر نہیں۔
اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ جب مودودی صاحب خلافت و ملوکیت والے مضامین قسط وار اپنے رسالے میں چھاپ رہے تھے تو اس وقت تقی عثمانی صاحب کے رسالے ’البلاغ‘ میں مودودی صاحب کی تاریخ نویسی پر تنقید کی گئی تھی اور انہیں یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ اپنا دھیان مذہبی امور کی طرف ہی رکھیں تو بہتر ہے۔
اگر ہم جیسا گناہ گار ایسی نصیحت مفتی رفیع صاحب کو کرے تو یہ مناسب نہیں ہوگا لہذا ہماری تقی عثمانی صاحب سے یہ مودبانہ گزارش ہے کہ اپنے برادر محترم کو بھی وہی نصیحت کی جائے جو سید مودودی کو کی گئی تھی۔
حوالہ جات:
- پاکستانی فوج کی جنگوں میں کارکردگی کے لیے دیکھیے؛ A History of the Pakistan Army by Brian Cloughley
- پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی کہانی کے لیے دیکھیں؛ Nuclear Deception: The Dangerous Relationship Between the United States and Pakistan by Adrian Levy and Catherine Scott-Clark
- پاکستان میں فرقہ واریت کی تاریخ کے لیے دیکھیں؛ Sectarian War: Pakistan's Sunni-Shia Violence and its links to the Middle East by Khaled Ahmed
- 1965 کی جنگ میں پاکستان کے کردار اور حالات کے لیے دیکھیں؛ http://www.dailymotion.com/video/x11fowu_captain-r-gohar-ayub-khan-with-wusatullah-khan-in-bbc_news#.UdKTxzvTzIf
لکھاری میڈیکل کے طالب علم ہیں اس کے ساتھ تاریخ، سیاسی معیشت اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے بلاگز یہاں
پڑھیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abdulmajeedabid@
