زندہ مچھلی سے دمہ کا علاج کروائیں گے؟
سانس کی تکلیف کا باعث بننے والی بیماری دمہ جان لیوا لیکن قابل علاج مرض ہے، میڈیکل سائنس میں اس پر قابو پانے کے لیے کئی طریقہ علاج موجود ہیں تاہم اب بھی دنیا کے کئی حصوں میں قدیم اور دیسی ساختہ روایتی طریقہ علاج رائج ہیں۔
بھارت بھی ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں دمے کے مریضوں کو انوکھے طریقے سے علاج فراہم کیا جاتا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ہر سال جون کے مہینے میں بھارت بھر ہزاروں والدین دمے کے مرض میں مبتلا اپنے بچوں کو جنوبی شہر حیدرآباد لاتے ہیں۔
یہاں ایک بڑے میدان میں پنڈال سجایا جاتا ہے جہاں دمے کے مریضوں کا علاج زندہ مچھلی سے کیا جاتا ہے۔
چھوٹے چھوٹے پانی کے ٹب میں چھوٹی زندہ مچھلیاں موجود ہوتی ہیں اور دیسی معالج ہر مریض کو زندہ مچھلی پر ایک زرد رنگ کا پیسٹ لگا کر دیتا ہے جو اسے زندہ ہی نگلنی ہوتی ہے۔
لوگوں کا ماننا ہے کہ مچھلی کو زندہ نگلنے سے انہیں سانس کی تکلیف سے کسی حد تک نجات ملتی ہے۔تڑپتی ہوئی پانچ سینٹی میٹر لمبی 'مورل فش' مریض کے گلے سے اترتی ہے تو وہ بھی ایک لمحے کے لیے تڑپ کر رہ جاتا ہے۔
اس طریقہ علاج کا انتظام حیدر آباد کا باتھینی گود خاندان کرتا ہے اور یہ یہاں آنے والے لوگوں کو مفت میں مچھلیاں فراہم کرتا ہے۔
باتھینی خاندان کا دعویٰ ہے کہ زندہ مچھلی حلق سے نیچے اترتے ہوئے گلے کو صاف کردیتی ہے اور دمے کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیتی ہے جبکہ اس سے سانس کی دیگر بیماریاں بھی ٹھیک ہوجاتی ہیں۔
باتھینی خاندان کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ایک خفیہ فارمولا ہے جو اسے ایک ہندو صوفی بزرگ سے 1845 میں ملا تھا اور وہ اسے عام نہیں کرسکتے۔
علاج کی غرض سے اپنے بچوں کو یہاں لانے والے والدین اپنے بچوں کا منہ زبردستی کھول کر انہیں زندہ مچھلی کھانے پر مجبور کرتے ہیں کیوں کہ بچے زندہ مچھلی کھانے کے خوف سے ہی رونا شروع کردیتے ہیں۔
اکثر بچوں کو اپنی آنکھیں اور ناک بند کرکے مچھلی کو نگلتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ڈاکٹرز اس طریقہ علاج کو غیر سائنسی، انسانی حقوق کے خلاف اور غیر صحت بخش قرار دیتے ہیں تاہم باتھینی خاندان ان باتوں کو مسترد کرتا ہے۔
دوسری جانب بھارتی حکومت ہر سال حیدر آباد میں لگنے والے اس کیمپ تک لوگوں کو باآسانی پہنچانے کے لیے خصوصی ٹرینوں کا بھی انتظام کرتی ہے جبکہ مجمع کو قابو میں رکھنے کے لیے پولیس کی اضافی نفری بھی تعینات ہوتی ہے۔
جب مریض زندہ مچھلی کو نگل لیتا ہے تو اسے آئندہ 45 روز کے لیے کھانے پینے میں سخت احتیاط کی ہدایت کی جاتی ہے۔