دنیا

’دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کا طریقہ کار وضع‘

پاکستان اور افغانستان دہشت گردوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی تصدیق کے لیے ایک طریقہ کار وضع کرنے پر رضامند ہوگئے۔

اسلام آباد: پاکستان اور افغانستان دہشت گردوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی تصدیق کے لیے ایک طریقہ کار وضع کرنے پر رضامند ہوگئے۔

پاکستان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامیہ کے مطابق وزیر اعظم پاکستان نواز شریف اور افغان صدر اشرف غنی کے درمیان قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ایک غیر رسمی ملاقات ہوئی۔

اس ملاقات میں دونوں رہنما چار فریقی رابطہ گروپ (کیو سی جی) کے طریقہ کار اور دو طرفہ روابط کو دہشت گردوں کے خلاف مخصوص کارروائیوں کے لیے استعمال کرنے پر رضا مند ہوئے اور ان کارروائیوں کی تصدیق کے لیے باہمی مشاورت کے ساتھ ایک طریقہ کار بنانے پر بھی رضا مندی ظاہر کی۔

دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان ایک عرصے سے جاری غیر یقینی صورت حال کو ختم کرنے کے لیے افغانستان کی جانب سے یہ درینہ مطالبات سامنے آتا رہا ہے کہ دونوں ممالک اپنی اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی تصدیق کے لیے ایک طریقہ کار بنائیں۔

مزید پڑھیں: 'پاکستان، افغانستان مل کر دہشت گردوں سے لڑیں'

رواں سال مارچ میں افغانستان کی قومی سلامتی کے مشیر حنیف اطمر نے کہا تھا کہ کابل نے اسلام آباد کی 76 مطلوب دہشت گرودں کی فہرست کے جواب میں 85 دہشت گردوں کی فہرست تھما دی۔

انہوں نے اسلام آباد پر واضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'آپ ہماری فہرست پر کارروائی کریں ہم آپ کی فہرست پر کارروائی کریں گے لیکن دونوں ممالک کی جانب سے کی جانے والی ان کارروائیوں کے حوالے سے تیسرے فریق کی تصدیق کی ضرورت ہے جس کےلیے افغانستان تیار ہے، کیا اسلام آباد تیار ہے؟'

تاہم یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف اور افغان صدر اشرف غنی اپنے معاہدے کے باوجود اس بات پر متفق نہیں ہوئے ہیں کہ یہ طریقہ کار آخر کیسے بنایا جائے گا۔

افغان صدارتی ترجمان نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں انسداد دہشت گردی اور سیکیورٹی کے مسائل کو غیر فعال کیو سی جی بیان کرے۔

یہ بھی پڑھیں: 'پاکستان افغانستان اور ہندوستان کے تعلقات نہیں چاہتا'

پاکستان اور افغانستان کے علاوہ چین اور امریکا بھی اس چار فریقی رابطہ گروپ (کیو سی جی) کا حصہ ہیں جس کا قیام کچھ عرصہ قبل ہی عمل میں آیا ہے اور اس کا مقصد افغانستان میں مفاہمت اور امن کی بحالی کو فروغ دینا ہے۔

تاہم دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان کی خواہش ہے کہ اس طریقہ کار کو وضع کرنے کے لیے کیو سی جی کے عمل کے ساتھ ساتھ دوطرفہ روابط اور باہمی مشاورت کو استعمال کیا جائے۔

آستانہ میں ملاقات کے دوران نواز شریف نے افغان صدر سے کہا کہ خطے سے دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان قریبی تعاون نہایت ضروری ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات 31 مئی کو کابل میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد خراب ہوگئے تھے جبکہ افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس نے حقانی نیٹ ورک اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر کابل حملے کا الزام لگایا جس کی پاکستان نے سختی کے ساتھ تردید کی تھی۔

ایک اور خبر پڑھیں: پاکستان میں دہشت گردی: ’افغانستان میں موجود کالعدم تنظیم ملوث‘

آستانہ میں پاک افغان رہنماؤں کی ملاقات کے حوالے سے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق دونوں رہنماؤں نے کیو سی جی کو فعال کرنے پر بھی رضامندی ظاہر کی۔

دفتر خارجہ کے مطابق وزیر اعظم پاکستان نے مفاہمت کی اہمیت پر زور دیا اور سیاسی مذاکرات کو افغان تنازعہ کا بہترین حل قرار دیا۔

دوسری جانب افغان حکومت کیو سی جی کو دوبارہ فعال کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی، یاد رہے کہ بلوچستان کے دور دراز علاقے میں طالبان کمانڈر ملا منصور اختر کی ہلاکت کے بعد کیو سی جی کا کوئی اجلاس منعقد نہیں ہوا ہے۔

یہ خبر 11 جون 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی