بچپن میں مریم مرزاخانی نے بڑے ہو کر ناول نگار بننے کا خواب دیکھا تھا، لیکن ریاضی کی دنیا سے آشنائی کے بعد انہوں نے اسی کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔
1977 میں پیدا ہونے والی مریم نے تہران کے فرزانگان اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ ایرانی ریاست کی جانب سے اس اسکول کا قیام بالخصوص غیر معمولی صلاحیت کی حامل لڑکیوں کے لیے کیا گیا تھا۔ مرزاخانی علمی میدان میں آگے بڑھتی گئیں۔ وہ پہلی ایرانی خاتون ہیں جو 17 اور 18 برس کی کم عمری میں ریاضی کے بین الاقوامی مقابلے انٹرنیشنل میتھمیٹکس اولمپیاڈ میں مسلسل دو بار طلائی تمغے جیت کر اپنے وطن واپس لوٹیں۔
شریف یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے ہارورڈ یونیورسٹی گئیں۔ وہاں انہوں نے کرٹس مک ملن (فیلڈز میڈلسٹ) کی زیرِ نگرانی میں اپنے تھیسز پر کام کیا، بعد ازاں انہوں نے پرنسٹن یونیورسٹی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر اپنی خدمات سر انجام دیں اور 'کلے میتھمیٹکس انسٹی ٹیوٹ' میں بطور ریسرچ فیلو کام کیا۔
31 برس کی عمر میں مرزا خانی اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں بطور کل وقتی پروفیسر پڑھانے لگیں، وہاں 40 برس کی عمر میں کینسر کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہارنے تک وہ ریسرچ میں مصروف عمل رہیں۔
مرزا خانی نے اپنی مختصر سی زندگی میں اتنے تمغے حاصل کیے جتنے کئی مرد اپنے پورے تدریسی کریئر میں حاصل نہیں کر پاتے۔ 2009 میں انہوں نے امریکی میتھمیٹکس سوسائٹی کی جانب سے بلومینتھل ایوارڈ حاصل کیا اور 2013 میں ریاضی میں روتھ لائٹل سیٹر پرائز حاصل کیا۔
2014 میں وہ فیلڈز میڈل جتنے والی دنیا کی واحد خاتون بنیں— یہ ریاضی کے شعبے کا اعلیٰ ترین اعزاز ہے، جو کہ نوبیل پرائز جتنی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی سال، ان کا نام برطانیہ کے سائنسی میگزین 'نیچر’ میں 10 اہم ترین محققین کی فہرست میں شامل کیا گیا۔
مرزا خانی ٹیک مولر کے ادغامی نظریے (ارگوڈک تھیوری )جیومیٹری کی مختلف شاخوں جیسے ہائپر بولک جیومیٹری، سمپلیکٹک جیومیٹری اور کثیر الجہتی سپیس (موڈیولی سپیسز) سے متعلق ریاضیاتی نظریات کی ماہر تھیں۔ عام لفظوں میں کہیں تو ان کا کام جیومیٹری کی مختلف صورتوں کو سمجھنا،اور تین سے زیادہ ڈائیمینشنز (جہتوں) کے ساتھ تجریدی سطحوں میں اجسام اور اشکال کی صورت و ہیئت کو سمجھنا تھا۔ یہ مسائل آج بھی انتہائی مشکل سمجھے جاتے ہیں اور انہوں نے ریاضی دانوں کو ایک عرصے سے مشکل میں ڈالا ہوا ہے۔
ان کے سپروائیزر کرٹس مک ملن نے اسنوکر کی ٹیبل پر گیندوں کی ممکنہ سمت کا پتہ لگانے کے مسئلے کا ریاضیاتی حل فراہم کیا، وہ ٹیبل دراصل ہموار سطح نہیں بلکہ کسی ڈونٹ نما سطح کے طور پر تصور کی گئی تھی۔ مگر مرزا خانی نے اپنے سپروائیزر سے ایک قدم آگے بڑھ کر کام کیا۔
مریم نے اپنی اعلی ٰ صلاحیت پر انحصار کرتے ہوئے اس ریاضیاتی مسئلے کی پیچیدگیوں سے بے خوف ہو کر اپنے سپروائیزر سے ایک قدم آگے بڑھ کر کام کیا اور ان پیچیدہ سطحوں کو اپنے تھیسز کا موضوع بنایا جن کو حل کرنا بہت مشکل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے تھیسز سے تین ایسے ریسرچ پیپر سامنے آئے جو بے شمار انوکھے اور منفرد تصورات کے حامل تھے۔