'اے موئی، آتش بے دود میں جل مرو'
افسانہ: گندم کا بلبلہ
میرا ذہن کل سے خالہ کے کوسنوں میں اٹکا ہوا ہے۔
’تم تو آتش بے دود میں جل مرو۔‘
’آتش بے دود کی زبانیں چاٹنے آئیں تجھے۔‘
آج صبح کچھ مختلف تھی، جس کا احساس مجھے دوپہر کے بعد ہوا۔ اپنی شب و روز کی الجھنوں کے درمیان کسی خارجی تبدیلی کا احساس کسی خارجی محرک ہی پر ہوسکتا ہے۔
خالہ چھٹکن کے کوسنے آج سننے میں نہیں آئے تھے گویا اُنہوں نے معمول کی دیوار میں شگاف کردیا تھا اور شاید ہی کسی کو احساس ہوا ہو۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اُن کوسنوں کا خصوصی ہدف یعنی اُن کی پڑوسن آج بیمار ہے۔
دوپہر ہے یا نان بائی کا تنور؟ سالانہ چھٹیاں کام میں لانے کے لیے کمپنی سے ایک ہفتے کی چھٹی لی ہوئی ہے۔ اِن چھٹیوں کا مقصد محض گھر پر آرام ہے۔ بیوی بچے بھی میرے اِس معمول سے واقف ہیں۔ لیکن گھر کے چھوٹے موٹے روز مرہ کام ایک وقتی معمول کی صورت میں قبول نہ کرنے کا کوئی امکان نہیں۔
اِس لیے روز نان بائی کے پسینے سے تر ہاتھوں کو تنور میں روٹیاں لگاتے دیکھتا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ کیا ہم اپنے پسینے کی روٹیاں کھاتے ہیں یا نان بائی کے؟ گرم روٹیاں اخبار کے ٹکڑے پر اوپر تلے رکھ کر گھر کی طرف چل پڑا ہوں۔ دائیں ہاتھ کی انگلی میں بے چینی محسوس ہوئی تو سب سے اوپر والی روٹی پر نکلے گندم کے بلبلوں پر نگاہیں ٹک گئی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اُنہیں کیا کہتے ہیں اِس لیے میں اِنہیں گندم کے بلبلے ہی کہتا ہوں۔
انگلی نے گندم کے ایک بلبلے پر اپنے ہونے کی گواہی دی۔ میں سوچتا ہوں کہ شہادت کی انگلی کو گویائی مل جائے تو یہ مجھے بتاسکتی ہے کہ بلبلے کے پھوٹنے پر اُس نے پسینے کی جو بو محسوس کی وہ کس کی ہے؟ پھوٹتے وقت کرنچ کی سی آواز میں حدّت کا سرور تھا یا یخ بستہ درد کی لہر۔ گنبد نما بلبلے کا ٹکڑا منہ میں ڈال کر چبانا مجھے اچھا لگتا ہے۔ گندم کے بلبلے پھوڑتے پھوڑتے گھر کے دروازے پر پہنچا ہوں تو خالہ ایک طرف سے آکر گھورنے لگی ہیں۔ اُنہیں دیکھ کر کوسنوں کا یاد آنا بالکل فطری ہے۔ سلام کلام کے بعد پوچھنے سے خود کو روک نہیں پایا،
’خالہ چھٹکن! یہ آتش بے دود کیا بلا ہے؟‘
’اے ہے نگوڑ مارے، یہ کس مردود چیز کا ذکر لے بیٹھے ہو؟‘
’خالہ آپ اپنی پڑوسن اور نادیدہ دشمنوں کو دھڑا دھڑ اِس بلا کے سپرد کرتی ہیں، اب بتا بھی دیں کہ یہ ہے کیا؟‘
’ارے خالص آگ ہے خالص آگ۔‘
خالہ نے جھنجھلا کر آنکھیں نکال لی ہیں اور ہاتھوں کو ہوا میں ایسے ہلایا ہے جیسے آکٹوپس اپنے لجلجے بازو ہلاتا ہے۔
میں نے خالہ کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا ہے، پڑوسن کے ذکر پر میں اُن کا کوئی ردِعمل محسوس نہیں کرپایا ہوں۔ بے خیالی میں انگلی گندم کے ایک بلبلے میں گھس گئی ہے۔ تپش کا احساس اور خالص آگ کی خبر کی الجھن دونوں دماغ کے مختلف حصوں پر اثر انداز ہوئے ہیں۔
’تو ہم جو آگ جلاتے ہیں وہ ناخالص ہے؟‘
مجھے محسوس ہوا کہ میرے چہرے نے کچھ نامعقول سا تاثر خود پر مل لیا ہے۔ خالہ کو چچ چچ کرتے افسوس ہوا ہے۔
’کیا فائدہ ہوا اتنا پڑھ لکھ کر۔ جب دنیا ناخالص ہے تو آگ کیسے خالص ہوسکتی ہے؟‘
خالہ نے بھول پن میں میرے لیے ایک اور الجھن چھوڑ دی ہے۔ یعنی پہلے ناخالص آگ اور اب ناخالص دنیا۔
’خالہ کتابوں میں تو آگ کی پوری کیمسٹری بتائی گئی ہے لیکن آپ کا یہ فلسفہ کہیں لکھا نہیں دیکھا۔‘
’میرے لعل، خالہ چھٹکن کو اترانے کا موقع ملا ہے۔‘
’یہ نگوڑ ماری کامسٹری میں کیا جانوں۔ پتا نہیں کیا اول فول بتاتی رہتی ہے۔ کیا اتنا بھی نہیں بتاسکتی کہ خالص آگ کبھی دھواں نہیں چھوڑتی۔ جلا کر بھسم کردیتی ہے اور پتہ بھی نہیں چلتا۔‘
یہ سن کر حیرت کیسے نہ گھیرتی مجھے۔ خالہ کو شاعری اور شاعروں سے سخت نفرت نہ ہوتی تو یہ موقع تھا جب میں اُن کو بتاسکتا تھا کہ کوئی اور سمجھے نہ سمجھے، اُن کی یہ بات سمجھنے والے کچھ تو موجود ہیں۔
چند لمحے قبل خالہ مجھے حیرت میں گرفتار کیے دے رہی تھیں اور اب شرمندگی کی پوٹلی تھما کر کچھ بے زار دکھائی دینے لگی ہیں۔ کشمکش میں ہوں کہ بہانہ کرکے بھاگ جاؤں یا خالہ کی فوک دانش کا مزید سامنا کروں۔
تب وہ لمحے اترے ہیں جب آدمی سارے کا سارا اُن کے حوالے ہوجاتا ہے۔ جیسے ہی میرے ہونٹ ہلے ہیں خالہ کے کانوں میں خفیف حرکت نمودار ہوئی۔ ہونٹوں اور کانوں کے درمیان آواز نے معنوی روپ دھارا ہے:
’تو پھر دنیا کیسے ناخالص ہے؟‘
میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ خالہ کو اِسی سوال کی توقع تھی لیکن پھر بھی اُن کے ہاتھ ایسے ہلے ہیں جیسے مکھی اُڑا رہی ہوں۔
’اس لیے کہ اس میں چیزیں جلدی بوسیدہ ہوجاتی ہیں۔‘
لمحے بھر میں خالہ نے حیرت کے وہ سارے گانٹھ کھول کر مجھے آزاد کردیا ہے جو ذرا دیر قبل میری نفسیاتی ہل چل کے ذمہ دار تھے۔ لیکن اُن لمحوں میں سے شاید کوئی ایک لمحہ اب بھی موجود ہے جن کے میں سارے حوالے ہوچکا تھا۔ تب ہی خالہ کی بوسیدگی والی بات پر نہ جانے کیسے ’ہاں یہ بالکل نہیں ہونا چاہیے تھا،‘ میرے منہ سے نکل گیا۔
’خالہ آپ کو بڑھاپے اور موت کا اتنا غم کیوں رہتا ہے؟‘
کیسی غضب ناکی ہے جو آنکھوں، ناک اور اُس کے اطراف کے پٹھوں سے شعلے کی طرح بھڑک کر نکلی ہے۔ پرانی روایات میں جی کر موت کی طرف بڑھنے والے موت کے ذکر کو جوانوں کے منہ سے سننا قبول نہیں کرتے۔
’دفع ہوجا نامعقول۔‘ وہ چیخ پڑی ہیں۔
’مر کھپنے کی باتیں دشمن کرتے ہیں۔‘
عجیب بات، بہت عجیب بات۔ یہ غضب ناکی لمحاتی ثابت ہوئی ہے۔ یہ غیض و غضب میرے مشاہدے میں پہلی بار آیا ہے، اِس لیے مجھے پتہ نہیں کہ خالہ چھٹکن کے غیض و غضب کا سمندر اِسی طرح چڑھتا اترتا ہے یا کوئی خاص معاملہ ہے۔
لیکن اب جو دیکھتا ہوں تو حیرت کا گزرا دور پھر لوٹا ہے۔ خالہ کے چہرے پر دھواں ہے۔شاید یہ دُکھ کا دھواں ہے اور شاید دُکھ کا دھواں ایسا ہوتا ہوگا جیسا کہ مجھے اِس وقت دیکھ کر محسوس ہورہا ہے۔
خالہ کے من کی بات پکڑنا آسان نہیں لیکن مجھے پہلی بار محسوس ہوا ہے کہ آج خالہ کے ردِعمل میں دُکھ بہت واضح ہے اور اُسی لمحے مجھے آج کے دن کے آغاز کے مختلف ہونے کا احساس بھی ہوا ہے، اتنی دیر بعد۔
مجھے آپ کو یاد دلانا پڑے گا کہ اِس وقت میں اپنے گھر کی دہلیز پر تندوری روٹیاں لے کر کھڑا ہوں اور میرے سامنے کھلے دروازے کے بالکل سامنے بنے کمرے کے کھلے دروازے میں میری بیوی کسی سے فون پر بات کررہی ہے۔
تو ایک طرف خالہ چھٹکن کھڑی دھواں دھواں ہورہی ہیں اور دوسری طرف میری بیوی کسی کو بتارہی ہے کہ خالہ کی پڑوسن کو بریسٹ کینسر تشخیص ہوا ہے۔ پڑوسن اور بریسٹ کینسر کے الفاظ نے میرے اعصاب پر کاری وار کردیا ہے۔
لفظ ایک لہر بن کر گوشت پوست کے آدمی کو کس طرح دھکیل دیتا ہے، یہ اپنے قدموں کی ہلکی سی لڑکھڑاہٹ سے جانا ہوں۔ آواز نے اپنی طاقت سے مجھے اُٹھاکر خالہ کے من کی کائینات میں پھینک دیا ہے۔ خالہ سمجھ رہی ہیں، بریسٹ کینسر ایک آگ ہے جو دھواں نہیں دیتی بلکہ جلاکر راکھ کردیتی ہے۔
اُن کی پڑوسن آتش بے دود میں جل مر رہی ہے۔ چند لمحے میری سماعت میں خالہ کے کوسنے گونجنے لگے ہیں۔
’اے موئی، آتش بے دود میں جل مرو۔‘
بے حضوری کے اِسی عالم میں شہادت کی انگلی نے گندم کا بلبلہ پھاڑ دیا ہے لیکن ٹھنڈا بلبلہ کوئی احساس دینے سے قاصر ہے۔ انگلی کیسے گواہی دے کہ جو طاقت اُسے گندم کھانے سے ملتی ہے وہ گندم کی اپنی ہے یا اُن مضبوط پیروں کی جو اُسے پوری طاقت سے گوندتے ہیں۔
میرے اندر بھی کسی کو دُکھ دینے کا ایک عجیب سا ٹھنڈا احساس پھیلا ہے، شاید یہ سب سے بُرا کام ہے کہ کوئی ایک بوڑھی عورت کو بوڑھی کہہ دے۔ یہ ٹھنڈک اندر سے مار دینے والی ہے۔ روٹی پر گندم کے پھٹے بلبلے سے میرے جھکے سر سے اترنے والی نگاہیں الجھ رہی ہیں اور خالہ گندم کا یہ ناخالص بلبلہ پھوڑ کر جاچکی ہیں!
رفیع اللہ میاں افسانہ نگار، شاعر اور نقاد ہیں۔ ایک ادبی پرچے کے معاون مدیر ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی کالم بھی لکھتے ہیں
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
رفیع اللہ میاں افسانہ نگار، شاعر اور نقاد ہیں۔ ایک ادبی پرچے کے معاون مدیر ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی کالم بھی لکھتے ہیں
