Dawn News Television

شائع 03 نومبر 2017 01:13pm

اداریہ: ہندوستان سے کہتے ہیں کہ آئیے اسموگ کے مسئلے پر بات کریں

اب جبکہ ذہنی و جسمانی صحت کے لیے مضر اسموگ بالائی بنجاب کے مختلف علاقوں میں پھیل رہا ہے، تو یہ ایک یاد دہانی ہے کہ پاکستان کو ہندوستان کے ساتھ جغرافیائی سیاست کے علاوہ دیگر معاملات پر بھی بات چیت کرنی ہوگی۔

متعدد رپورٹس کے مطابق، یہ اسموگ ہندوستانی پنجاب میں جلائے جانے والے زرعی فضلات سے پیدا ہوتا ہے اور سیٹلائٹ تصاویر میں بھی وسیع پیمانے پر زرعی زمینوں میں بڑھکتی آگ دیکھی جاسکتی ہے۔

اسموگ کی شدت کم کرنا صوبائی حکام کے بس سے باہر ہے، لیکن ہاں اِس کے اثرات کو کم کرنے میں کردار ادا کرسکتے ہیں مثلاً، اسموگ کے نقصان دہ اثرات سے بچنے کے حوالے سے شہریوں کو ہدایات فراہم کرنا اور آگاہی پھیلانا۔

اِس کے ساتھ ساتھ، سرکاری ہسپتالوں میں اسموگ سے متعلقہ سانس کی بیماریوں کے علاج کے لیے زیادہ سے زیادہ انتظامات کیے جا سکتے ہیں۔

لیکن جب بات اصل وجوہات سے نمٹنے کی آتی ہے تو پاکستان کو ہندوستانی حکومت کے ساتھ بات چیت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا تاکہ مسئلے کو باضابطہ طور پر اٹھایا جائے، صوبائی سطح سے شروع کرنا زیادہ بہتر ہے۔

یہ ابھی تک واضح نہیں کہ آیا زرعی فضلات کو جلانے کا عمل پہلے بھی ہوتا آیا ہے یا پھر نیا ہے، جبکہ اِس قسم کا اسموگ ایک طویل عرصے سے تو دکھائی نہیں دیا ہے۔

گزشتہ برس بھی اسموگ تھا، لیکن عام طور پر اسموگ سال کے آخر میں پنجاب کے شہروں کو اپنی گرفت میں لیتا ہے اور اِس کی وجہ مختلف تحقیق کے مطابق وہ کیمائی آلودہ ذرات تھے جو سرحد پار کوئلے کے بجلی گھروں میں جلنے والے کوئلے سے پیدا ہوتے ہیں۔

آلودگی، موسمیاتی تبدیلی اور پانی کے بہاؤ جیسے مسائل کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور دونوں ملکوں کو ہر گزرتے سال کے ساتھ ان بڑھتے مسائل سے پیدا ہونی والی مشکلات کا سامنا ہے۔

سرحد کے دونوں اطراف جذبات جو بھی ہوں لیکن کسی نہ کسی نکتے پر ہندوستان اور پاکستان کو اِن مسائل کے بارے میں بات کرنی ہی پڑے گی، ورنہ اِس کے سنگین نتائج دونوں کے لیے نقصاندہ ثابت ہوں گے۔

سرحد کے دونوں اطراف رہتے عوام کی زندگیوں پر اِن مسائل کے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں اُسے مدِنظر رکھتے ہوئے، عملی طریقہ اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

سب سے پہلے ذہن کی صفائی کی ضرورت ہے کیونکہ اِس کے بعد ہی سرحد کے دونوں اطراف فضا اور اِن کے تعلقات میں پھیلے اسموگ کو صاف کیا جاسکتا ہے۔

یہ اداریہ 3 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

Read Comments