غزل کی آبرو: رسا چغتائی
دورِ حاضر کا سب سے بڑا خسارہ ماضی کی کھو جانے والی سنہری روایتیں ہیں۔ شاعری کے منظرنامے پر، تہذیبی لہجے کے مالک، غزل کی آبرو، مغل زادوں کا داستان گو، سادہ اور کم گو شاعر ’رسا چغتائی‘ بھی ہم سے رخصت ہو گئے۔ وہ شاعری نہیں بلکہ احساس قلم بند کیا کرتے تھے، محبت کی سرگوشیاں سنتے اور سماج کے دُکھ لکھتے تھے۔
اُن کے اندر ایک جہاں آباد تھا، مگر وہ اپنے محدود سے گھر میں گوشہ نشین رہنے کو سہولت گردانتے تھے، اُن کے لیے جدید دور کی ٹیکنالوجی پریشان کردینے والی ایجاد تھی، وہ ویسے بھی دل کی بات دل تک پہنچانے پر دسترس رکھتے تھے، وہ استاد شاعر تھے، مگر اپنی زندگی میں اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ استاد تو صرف داغ جیسا شاعر ہی ہوسکتا ہے یا پھر وہ میر تقی میر جیسا باکمال شاعر ہوتا ہے۔
آج سے ٹھیک 10 برس قبل، راقم نے اُن سے کراچی کے علاقے کورنگی میں واقع اُن کے گھر پر ملاقات کی تھی۔ اُس سادہ سے مکان میں گزشتہ اور موجودہ صدی کا اہم شاعر مقیم تھا، جس کا شعری کینوس پر اپنا گہرا رنگ موجود تھا، لیکن دُکھ کی بات یہ تھی کہ جہاں یہ شاعرِ بے بدل موجود تھا اُس کے در و دیوار کا رنگ اُکھڑا ہوا تھا، بالکل اُن کے جذبات کی طرح، کیونکہ موجودہ سماج وہ نہ تھا جہاں علم دوستی اور فکری سنجیدگی کی اہمیت ہوا کرتی تھی۔
نہ وہ چراغ رہے، نہ روشن ماتھے، نہ ہی وہ لہجے، جن کو سماعت کرنے سے دانش کے دریچے وا ہوتے تھے۔ خود سوچیے جب تنہائی کی عمر ایک صدی پر محیط ہونے لگے تو دل کیسی خانہ ویرانی میں مبتلا ہوتا ہوگا؟ استاد اسی کیفیت کو رقم کرتے رہے، رومان اور اُداسی کے رنگوں میں شعروں کا زاویہ بدلتا رہا لیکن احساس کی کیفیت برقرار رہی۔
رسا چغتائی کا خود بھی ماننا یہی تھا کہ شہرت اور چرچے کے بجائے، اُداسی اور گوشہ نشینی ہی تخلیق کے دریچے وا کرتی ہے، خیال سے تخلیق تک جانے کے لیے کوئی اور راستہ سازگار نہیں ہوسکتا ہے۔