کینیا کا شہر نیروبی، قدرتی حسن اور وہاں چھپی اداسی
کینیا کا شہر نیروبی، قدرتی حسن اور وہاں چھپی اداسی
یہ اگست 2011ء کی پہلی تاریخ اور پہلا روزہ تھا جب مجھے ہیلپنگ ہینڈ فار ریلیف اینڈ ڈیولپمنٹ کی طرف سے افریقہ میں جاری قحط سالی سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں کے لیے روانہ کیا گیا۔
تقریباً ساڑھے 3 گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم دبئی ایئرپورٹ میں کینیا روانگی کے لیے کینین ایئرویز کے لاؤنج میں آکر بیٹھ گئے۔ دبئی ایئرپورٹ کا یہ خوبصورت لاؤنج سیاہ فام لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ یہاں آکر ایک لمحے کے لیے ایسا لگا جیسے ہم کسی نئی دنیا میں آگئے ہوں کیوں کہ پاکستانیوں اور عربوں کی شکلیں تو زیادہ تر ملتی جلتی ہیں لیکن پورے لاؤنج میں ہم 2 ہی مختلف شکل و صورت والے تھے۔
آدھے گھنٹے کے انتظار کے بعد ہم کینین ایئرویز کے خوبصورت جہاز میں بیٹھ گئے اور چند ہی منٹوں میں ہم دبئی کی بلند و بالا عمارتوں کے اوپر سے گزرتے ہوئے لگ بھگ 5 گھنٹے کی طویل مسافت کے بعد بادلوں سے ڈھکے ہوئے نیروبی شہر کی فضاؤں میں گھوم رہے تھے۔