Dawn News Television

شائع 22 اکتوبر 2018 08:23pm

چین کا ایک اور دنگ کردینے والا منصوبہ

چین کا ایک اور دنگ کردینے والا منصوبہ



چین کی جانب سے متعدد میگا پراجیکٹس پر کام جاری ہے جو اس کے شہروں کو بدل کر رکھ دیں گے۔

آئندہ ایک دہائی کے دوران چین کا ارادہ ہے کہ 25 کروڑ افراد کو ملک کے بڑے شہروں میں منتقل کیا جائے۔

اتنی بڑی نقل مکانی کے لیے چین میں اربوں ڈالرز سے انفراسٹرکچر کے بہت بڑے منصوبوں پر کام کیا جارہا ہے۔

ان میں سے ایک دنیا کا سب سے بڑا سمندری پل ہے۔

رواں ہفتے چین کی جانب سے ہانگ کانگ، مکاﺅ اور جنوبی چین کے شہر ژوہوئی کو ملانے والے بہت بڑے پل کو عوام کے لیے کھولا جارہا ہے۔

اس سے پہلے دنیا کا سب سے طویل سمندری برج چین میں ہی تھا جس کی لمبائی 26۔3 میل تھی جو کہ چنگ ڈاؤ میں تعمیر کیا گیا تھا۔

34 میل تک پھیلے ہانگ کانگ۔ مکاﺅ۔ ژوہوئی برج کا منصوبہ چین کے 3 بڑے شہروں کو ایک دوسرے سے منسلک کردے گا اور اس طرح 4 کروڑ 20 لاکھ افراد پر مشتمل ایک بڑے شہر کا قیام عمل میں آجائے گا۔

اس کی تصاویر نیچے دیکھ سکتے ہیں۔

دنیا کے سب سے بڑے سمندری پل کی تعمیر سے ان تینوں شہروں کے درمیان سفر کا وقت 50 فیصد سے بھی زیادہ کم ہوجائے گا۔

اے پی فوٹو

اس پل کے کھلنے کے بعد پرل ریور کے ذریعے ہانگ کانگ سے مکاؤ جانے والے افراد ایک گھنٹے کے اندر ہی اپنی منزل تک پہنچ سکیں گے۔

اے پی فوٹو

یہ پل سکس لین کا ہے جس میں 4 سرنگیں بھی تعمیر کی گئیں، جن میں سے ایک زیرآب ہے۔

اے پی فوٹو

اس پل کو سہارا دینے کے لیے چین کی جانب سے 4 مصنوعی جزیرے بھی تعمیر کیے گئے۔

اے پی فوٹو

چین نے اسے 'انجنیئرنگ کا عجوبہ' قرار دیا ہے جس میں 4 لاکھ 20 ہزار ٹن اسٹیل استعمال کیا ہے، اتنے اسٹیل سے 60 ایفل ٹاور آسانی سے تعمیر کیے جاسکتے ہیں۔

اے پی فوٹو

کچھ مقامات پر اس پل میں معمولی ڈھلوان بھی دیکھنے میں آتی ہے۔

اے پی فوٹو

توقع ہے کہ روزانہ اس پل پر سے 40 ہزار گاڑیاں گزریں گی جبکہ شٹل بس سروس بھی ہوگی جو ہر 10 منٹ میں دستیاب ہوگی۔

اے پی فوٹو

پیدل چلنے والوں یا موٹرسائیکل سواروں کو اس پل پر جانے کی اجازت نہیں ہوگی بلکہ یہ صرف گاڑیوں کے لیے مخصوص ہوگا۔

اے پی فوٹو

چینی حکام کے مطابق یہ برج 120 سال تک کام کرتا رہے گا۔

اے پی فوٹو

یہ پل 20 ارب ڈالرز (20 کھرب پاکستانی روپے سے زائد) کی لاگت سے تعمیر کیا گیا ہے۔

اے پی فوٹو

اس پل کی تعمیر 7 سال میں مکمل ہوئی، 2012 کی اس تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح مصنوعی جزیرے تعمیر کیے جارہے ہیں۔

اے پی فوٹو

Read Comments