کھیل

ایشز: کمزور آسٹریلین ٹیم کا کڑا امتحان

ایشز کی تاریخ کا جائزہ، حالیہ ایشز میں انگلش ٹیم کو دو دہائیوں کی مضبوط ترین جبکہ آسٹریلیا کو کمزور ترین ٹیم قرار دیا جا رہا ہے۔

کرکٹ کی تاریخ کے قدیم ترین حریفوں انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان مشہور زمانہ ایشز سیریز کا آغاز آج سے ہو رہا ہے جہاں گزشتہ دو دہائیوں میں پہلی دفعہ انگلش ٹیم کو اپنے حریف پر واضح برتری حاصل ہے، کرکٹ ماہرین موجودہ انگلش ٹیم کو اس عرصے کے دوران سب سے مضبوط ٹیم کہہ رہے ہیں تو دوسری جانب اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ گزشتہ 20-25 سال میں ایشز کھیلنے والی یہ آسٹریلیا کی کمزور ترین ٹیم ہے۔

ایشز کی تاریخ انتہائی دلچسپ حقائق اور واقعات سے بھرپور ہے، دونوں ملکوں کے درمیان پہلا ٹیسٹ میچ تو 1877 میں کھیلا جا چکا تھا تاہم اس لفظ ایشز یعنی راکھ کی بنیاد دراصل 1882 میں اوول کے مقام پر دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والا وہ مشہور زمانہ نواں مقابلہ تھا جس نے نہ صرف کرکٹ بلکہ خصوصاً ٹیسٹ کرکٹ کے لیے بھی نئی راہیں متعین کیں۔

سن 1882 میں آسٹریلین ٹیم انگلینڈ کی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز کھیلنے پہنچی تو میزبان کو سیریز کے لیے واضح فیورٹ قرار دیا جا رہا تھا تاہم اس لو اسکورنگ میچ میں جو ہوا اس نے انگلش میڈیا اور شائقین کو ہلا کر رکھ دیا۔

مذکورہ اوول ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں آسٹریلین ٹیم صرف 63 رنز پر ڈھیر ہو گئی جہاں انگلش ٹیم بھی جواباً صرف 38 رنز کی لیڈ حاصل کر سکی، دوسری اننگ میں بھی آسٹریلیا کی حالت مختلف نہ تھی اور وہ 122 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے جس کے باعث انگلینڈ کو جیت کے لیے محض 85 رنز کا ہدف ملا لیکن کون جانتا تھا فیورٹ ٹیم اس آسان دکھائی دینے والے ہدف کے تعاقب میں بھی ناکام رہے گی۔

انگلش ٹیم 85 رنز کے ہدف کے تعاقب میں صرف 77 رنز پر ڈھیر ہو گئی اور اسی کے ساتھ ہی آسٹریلیا نے 7 رنز کی تاریخی اور ناقابل فراموش فتح حاصل کی۔

یہ آسٹریلین ٹیم کی انگلش سرزمین پر پہلی فتح تھی جو برطانوی میڈیا کو ہضم نہ ہوئی اور اس نے میزبان ٹیم کے بخیے ادھیڑ دیے، اس حوالے سے سب سے مشہور لائن اسپورٹنگ ٹائم کی وہ ہیڈ لائن ہے جو بذات خود ایک تاریخ بن گئی۔

'انگش کرکٹ کی موت ہو چکی ہے، اس کی لاش کو جلا کر راکھ آسٹریلیا لے جائی جا رہی ہے'۔

میچ کے بعد گراؤنڈ میں موجود کچھ آسٹریلین خواتین نے انگلش ٹیم کے کپتان آئیوو بلگ کو بیلز جلا کر اس کی راکھ ایک ٹرافی نما چیز میں رکھ کر پیش کی تھی اور یہی چیز ایشز کا نقطہ آغاز ثابت ہوئی۔

اس سیریز کے بعد بلگ نے متعدد انٹرویوز میں وعدہ کیا کہ وہ ایشز کو حاصل کر لیں گے اور اسی لیے انگلش میڈیا نے 1982-83 میں شیڈول آئندہ ٹور کو (ایشز کے دوبارہ حصول کی جستجو) قرار دیا۔

انگلش کپتان نے اگلے دورے کے دوران اپنے دعوے کو درست ثابت کر دکھایا اور اگلی سیریز میں فتح حاصل کر کے ایشز دوبارہ حاصل کر لی تاہم اس کے بعد عوامی سطح پر لفظ ایشز اتنا مقبول نہ رہا اور دو دہائیوں تک اس کا استعمال نسبتاً کم ہو گیا۔

سن 1902 میں دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی مشہور زمانہ اور دلچسپ سیریز میں لفظ ایشز کی گونج ایک بار پھر زوروشور سے سنائی دی جس کے بعد مارلیبون کرکٹ کلب(ایم سی سی) نے معاملے پر سنجیدگی سے غور کیا اور 1903 میں ہونے والی سیریز کو پہلی مرتبہ ایم سی سی کے زیر اہتمام منعقد کرایا گیا۔

اس سیریز کو باقاعدہ ایشز کا نام دینے کےحوالے سے مختلف باتیں سامنے آتی ہیں جہاں کرکٹ کی مشہور ویب سائٹ کرک انفو اور دیگر کچھ ذرائع کے مطابق 1982 کے دورے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سیریز کو ایشز کا نام دیا گیا جبکہ کچھ حوالوں کے مطابق ایم سی سی کی جانب سے باقاعدہ میچز کے انعقاد کے بعد سے اب تک دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی سیریز کو ایشز کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

اس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان مخصوص دورانیے کے بعد متعدد سیریز ہوئیں جہاں کہیں انگلینڈ ٹیم نے حریف کو چت کیا تو کبھی آسٹریلیا نے انگلش ٹیم کو دھول چٹائی۔ اس دوران جنگ عظیم اول اور دوئم کے باعث کچھ سالوں کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان سیریز کا انعقاد نہ ہو سکا لیکن یہ وقفہ بھی عارضی ثابت ہوا اور کچھ عرصے بعد کرکٹ کے قدیم ترین حریفوں نے ایک بار پھر کھیل کے سونے میدانوں کو آباد کیا۔

آسٹریلیا کے عروج کا سفر اور ناکامی:

سن 1988 تک دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی سیریز میں کسی کو بھی واضح برتری حاصل نہ تھی جہاں کھیلے گئے 247 میچز میں سے 87 میں آسٹریلیا اور 86 میں انگلینڈ نے کامیابی حاصل کی جبکہ 74 ٹیسٹ ڈرا ہوئے لیکن 1989 میں آسٹریلین کرکٹ وہ عروج حاصل کیا کہ دنیا دیکھتی رہ گئی اور اس دوران اس نے ناصرف فتوحات کے نئے ریکارڈز قائم کیے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انگلینڈ سمیت دنیا بھر کی ٹیموں کے لیے فتح کا حصول بھی حسرت بنا دیا۔

سن 1989سے 2005 کے دوران آسٹریلیا کو ایلن بارڈر، مارک ٹیلر خصوصاً اسٹیو وا جیسے عظیم کپتانوں کا ساتھ حاصل رہا جس کے باعث آسٹریلین ٹیم سوائے چند مرحلوں کے کھیل پر مکمل حاوی رہی، آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان اس عرصے کے دوران ہونے والے میچز میں آسٹریلین ٹیم کی برتری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس دورانیے میں کھیلے 43 میں سے 28 میچز میں فتح نے آسٹریلینز کے قدم چومے اور انگلش ٹیم کو صرف 7 بار جیت کی خوشی منانے کا موقع میسر آیا جبکہ آٹھ ٹیسٹ ڈرا پر ختم ہوئے جس میں موسم کی مہربانی بھی شامل تھی۔

تاہم 2005 میں انگلینڈ کی سرزمین پر ہونے والی سیریز میزبان کے لیے نئی صبح کا آغاز ثابت ہوئی، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ 10-15 سالوں کے دوران انگلینڈ کی خراب کارکردگی کے باعث انگلینڈ میں کرکٹ کے کھیل نے دم توڑنا شروع کر دیا تھا اور ماسوائے چند حلقوں کے، یہ کھیل انتہائی محدود ہو گیا تھا لیکن 2004 میں انگلش ٹیم کے ٹیسٹ کرکٹ میں ناقابل شکست رہنے کے بعد انگلش شائقین کو کچھ ڈھارس بندھی اور برطانوی میڈیا نے سیریز سے قبل ہی اسے دلچسپ قرار دینا شروع کر دیا تھا تاہم یہ سیریز لوگوں کی توقعات سے کہیں زیادہ اور ایشز کی تاریخ کی دلچس ترین سیریز میں سے ایک قرار پائی۔

اس سیریز کا آغاز بھی ماضی سے کچھ مختلف نہ تھا جہاں لارڈز میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں آسٹریلیا نے باآسانی کامیابی حاصل کی تاہم دوسرے ٹیسٹ میں میزبان نے سیریز میں شاندار انداز میں واپس آتے ہوئے ایشز کی تاریخ کے دلچسپ ترین معرکے میں صرف دو رنز سے فتح اپنے نام کی۔

سیریز کا اگلا ٹیسٹ بھی انتہائی دلچسپ ثابت ہوا جہاں ڈرا ہونے والے مقابلے میں آسٹریلوی بلے بازوں کی آخری جوڑی نے بمشکل اپنی ٹیم کو شکست کی خفت سے بچایا تاہم قسمت ہر بار دھوکا نہیں دیتی اور انگلش ٹیم نے چوتھے ٹیسٹ میں تین وکٹ سے کامیابی حاصل کر کے سیریز میں ناقابل شکست 2-1 کی برتری حاصل کر لی۔

اوول میں ہونے والے سیریز کے آخری ٹیسٹ کے ڈرا پر ختم ہونے کے ساتھ ہی انگلینڈ نے 18 سال بعد پہلی اور اپنی سرزمین پر 20 سال بعد اولین ایشز جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔

اس کے بعد اگلی سیریز میں آسٹریلیا نے ورلڈ چیمپیئن ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی سرزمین پر انگلینڈ کو 5-0 سے کلین سوئپ کیا۔ اس سیریز کے بعد جسٹن لینگر، گلین میک گرا اور مایہ ناز اسپنر شین وارن نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا جبکہ مڈل آرڈر بلے باز ڈیمین مارٹن اسی سیریز کے دوران کھیل سے کنارہ کشی کا اعلان کر چکے تھے۔

ان چاروں کھلاڑیوں اور کچ عرصے بعد میتھیو ہیڈن اور ایڈم گلکرسٹ کی ریٹائرمنٹ اور نئے باصلاحیت نوجوانوں کی عدم دستیابی کے باعث دراصل آسٹریلین ناکامی یا اگر یوں کہا جائے کہ زوال کا سفر شروع ہوا تو غلط نہ ہو گا۔ اس بات کی پہلی دفعہ نشاندہی 2009 میں ہونے والی ایشز سیریز کے دوران ہوئی جس میں انگلینڈ نے ایک بار پھر 2-1 سے سیریز جیت کر ٹرافی واپس حاصل کر لی۔

سن 2010-11 میں آسٹریلین سرزمین پر ہونے والی ایشز میزبان کے لیے ایک ڈرانا خواب ثابت ہوئی جہاں انگلش ٹیم نے باآسانی 3-1 سے سیریز جیت کر ایشز اپنے پاس برقرار رکھی اور 24 سال بعد آسٹریلین سرزمین پر ٹرافی جیتنے کا اعزاز حاصل کیا، اس سیریز میں کئی ریکارڈز بھی ٹوٹے جہاں پہلی مرتبہ کسی ٹیم نے ایک سیریز کے تینوں میچوں میں اننگ سے فتح حاصل کی جبکہ انگلینڈ نے بھی کسی سیریز میں پہلی مرتبہ چار دفعہ 500 یا اس سے زائد رنز کا ہندسہ عبور کیا۔

اب کیا ہو گا:

دو دہائیوں کی کمزور ترین آسٹریلین ٹیم:

موجودہ سیریز کا جائزہ لیا جائے تو انگلش ٹیم بجا طور پر واضح فیورٹ دکھائی دیتی ہے جہاں اسے گزشتہ دو دہائیوں کی مضبوط ترین اور متوازن ٹیم کہا جائے تو غلط نہ ہو گا لیکن دوسری جانب آسٹریلیا کے ساتھ معاملہ بالکل الٹ ہے جہاں اسے ابتک کی کمزور ترین ٹیم کہا جا رہا ہے۔

اس حوالے سے اگر آسٹریلین ٹیم کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کچھ غلط بھی نہیں معلوم ہوتی جہاں کپتان مائیکل کلارک اور آل راؤنڈر شین واٹسن کے علاوہ کوئی اور میچ ونر دکھائی نہیں دیتا۔

آسٹریلیا کی مشکلات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ کچھ میچز سے انہوں نے خراب پرفارمنس کے باعث اپنی گیارہ رکنی ٹیم برقرار نہیں رکھی اور تجربات کا سلسلہ جاری رہا۔

اسی دورانیے میں سابق لیجنڈری کپتان رکی پونٹنگ اور پھر مائیکل ہسی کی ریٹائرمنٹ کے بعد صورتحال مزید گمبھیر ہو گئی جس کا واضح ثبوت ہندوستان کے خلاف رواں سال کھیلی گئی ٹیسٹ سیریز ہے جہاں آسٹریلیا کو 4-0 کی شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

اب حال یہ ہے کہ ماضی کی چیمپیئن ٹیم کو ناصرف بیٹنگ آرڈر ترتیب دینے میں مشکلات کا سامنا ہے بلکہ باؤلنگ لائن کی ناتجربہ کاری بھی ان کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے۔

مائیکل کلارک کی بات کی جائے تو وہ حالیہ کچھ عرصے میں فٹنس مسائل کا شکار رہے ہیں اور اس سیریز میں یقیناً ان کے لیے قیادت کے ساتھ ساتھ بیٹنگ میں بھرپور فارم کا مظاہرہ کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہو گا۔

دوسری جانب شین واٹسن کی بات کی جائے تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ گزشتہ دو تین سال سے آسٹریلین ٹیم کے لیے میچ ونر کا کردار نبھاتے رہے ہیں لیکن کھیل کے سب سے بڑے فارمیٹ میں وہ ابھی تک اتنے موثر ثابت نہیں ہو سکے جبکہ حالیہ دنوں میں ان کی ناقص فارم بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے جس کے باعث ان سے کسی کرشماتی کارکردگی کی امید انتہائی کم ہے، ان دونوں کے علاوہ مہمان ٹیم کے پاس دوسرا کوئی اور بلے باز نہیں جو حقیقی طور پر انگلش باؤلرز کو چیلنج دے سکے۔

جہاں تک باؤلنگ کی بات ہے تو مچل اسٹارک اور جیمز پیٹنسن کے علاوہ کسی اور آسٹریلین گیند باز سے کارکردگی کی امید بے سود ہے اور وہ شاید ہی انگلش وکٹوں پر مہمان ٹیم کے لیے کوئی مشکلات کھڑی کر سکیں۔

انگلش ٹیم کا جائزہ لیا جائے تو یہ گزشتہ کچھ سالوں یا شاید دہائیوں میں انگلینڈ کی سب سے مضبوط اور متوازن ٹیم اور بجا طور پر فیورٹ ہے جہاں کپتان ایلسٹر کک، جوناتھن ٹروٹ، کیون پیٹرسن، ای این بیل اور میٹ پرائر کی صورت میں ایک مجبوط بیٹنگ لائن موجود ہے تو دوسری جانب فاسٹ باؤلرز جیمز اینڈرسن، اسٹورٹ براڈ، اسٹیفن فن اور اسپنر گریم سوان کی شکل میں خطرناک باؤلنگ اٹیک حریفوں کی بیٹنگ کو تہس نہس کرنے کے لیے تیار نظر آتا ہے۔

انگلش ٹیم کی سب سے بڑی خوبی گزشتہ کچھ عرصے سے مسلسل شاندار پرفارمنس ہے جس کی واضح دلیل ہندوستان کے خلاف اسی کی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز میں کامیابی ہے تاہم کاغذ پر مضبوط نظر آنے والی ٹیم کی کامیابی میں کپتان ایلسٹر کک کی ناتجربہ کاری آڑے آ سکتی ہے۔

دوسری جانب ناتجربہ کار اور کمزور آسٹریلین ٹیم کی واحد مثبت چیز ذہنی مضبوطی ہے جس کی بدولت اکثر اوقات وہ مشکل حالات سے بھی نبرد آزما ہونے میں کامیاب رہی ہے تاہم سیریز میں جیت کے لیے انہیں کھیل کے تینوں شعبوں میں اعلیٰ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

درحقیقت یہ سیریز آسٹریلیا کا ایک بہت بڑا امتحان ہے جسے ایشز کے دوبارہ حصول کے ساتھ ساتھ بحالی وقار کا چیلنج بھی درپیش ہے لیکن اگر انگلش ٹیم سیریز میں توقعات کے مطابق کارکردگی دکھاتی ہے اور موسم دخل اندازی نہیں کرتا ہے تو یقینی طور پر مہمان ٹیم سیریز میں ناقابل شکست رہنے کے ساتھ ساتھ سیریز میں کلین سوئپ بھی کر سکتی ہے۔