’میں اللہ اور یہاں پر موجود تمام لوگوں کے سامنے اس بات کا حلف اُٹھاتا ہوں/ اُٹھاتی ہوں کہ میں اپنے تمام اساتذہ کو عزت و احترام دوں گا /دوں گی۔ میں اپنے کام کو پوری ایمان داری اور لگن سے کروں گا / کروں گی۔ میری پہلی ترجیح میرے مریض کی صحت ہوگی اس میں کسی بھی مذہب، قومیت، نسل یا کسی بھی سیاسی یا سماجی تحریک کو اپنی ڈیوٹی اور مریض کے درمیان نہیں لاؤں گا / لاؤں گی۔ میں وعدہ کرتا ہوں / کرتی ہوں کہ اپنا یہ کام آزادی اور وقار سے سر انجام دوں گا / دوں گی۔‘
یہ وہ حلف ہے جو طب کی تعلیم حاصل کرنے سے پہلے میڈیکل طلباء اٹھاتے ہیں۔ مریضوں کے علاج و معالجے میں کوئی تفریق تو کجا یہ مسیحا صفت لوگ تو اپنی خوشی، غمی کو بالائے طاق رکھ کر انسانیت کی خدمت کا مقدس فریضہ انجام دیتے ہیں۔
محاذ ہو یا دہشتگرد حملے کے بعد ہسپتالوں میں نافذ کی گئی ایمرجنسی، یہ طبیب درد کی دوا کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ عظیم پیشہ قربانیاں بھی عظیم مانگتا ہے، ذاتی خوشی و غمی تو ایک طرف قومی دن یا مذہبی تہوار کی چھٹیوں کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔ اسپرٹ اور دوائیوں کی بو میں کبھی پوری پوری رات جاگ کر گزاری جاتی ہے تو کبھی کسی بھی ہنگامی صورت میں گھر پر گہری نیند سے جاگ کر فوراً ہسپتال پہنچنا پڑتا ہے۔
لیکن یہ سب قربانیاں دینے والے ہمارے مسیحا اپنی اس کوشش کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپنی کوششوں سے مطمئن ہیں؟ کیا وہ تھک تو نہیں گئے؟ کیا ان کو یہ پچھتاوا تو نہیں ہے کہ کاش وہ ڈاکٹر بننے کے بجائے کسی اور پیشے کا انتخاب کرلیتے تھے۔
یہ مسیحا کیا سوچتے ہیں؟ آئیے ان سے خود جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
عید پر کیا معمول ہوتا ہے؟
ڈاکٹر سیمی جمالی: معمول یہ ہے کہ صبح سب سے پہلے ہسپتال وزٹ کرنا ہوتا ہے کیوں کہ میری ایمرجنسی میں ڈیوٹی ہوتی ہے، اس لیے نماز کے بعد ایمرجنسی کا وزٹ کرنا میرا معمول ہے اور مریضوں کو دیکھنے کے بعد گھر واپس آتی ہوں۔ پھر اگر کبھی ضرورت پڑے، جو تقریباً ہمیشہ ہی پڑتی ہے، تو مجھے ہسپتال آنا پڑتا ہے کیوں کہ عموماً اسٹاف کی کمی کے ساتھ ساتھ عید پر دیگر مسائل کا بھی سامنا ہوتا ہے۔ کئی دفعہ عید پر فائرنگ کے معاملات ہوجاتے ہیں۔ جب گزشتہ سالوں میں حالات خراب ہوا کرتے تھے تو ایسا بہت ہوتا تھا اور ہم ہمیشہ ضرورت پڑنے پر ڈیوٹی پر آتے تھے۔ تو ایسی صورت میں گھر کو بعد میں اور ڈیوٹی کو پہلے رکھا ہے، کیوں کہ مجھے اپنے پیشے سے محبت ہے۔ میری نوکری بہت سخت ہے اور میں نے ہمیشہ اسے اپنے دل سے نبھایا ہے، اس لیے کبھی یہ نوکری یا پیشہ چھوڑنے کا دل بھی نہیں کیا۔
ڈاکٹر اللہ جڑیو: آج تک کبھی عید گھر پر نہیں کی۔ ڈبل ڈیوٹی کرنے کی وجہ سے کبھی سرکاری ڈیوٹی لگ جاتی ہے تو کبھی پرائیویٹ۔ شیڈول یہ ہوتا ہے کہ اگر چھٹی مل بھی جائے تو شہر نہیں چھوڑ سکتے۔ جب سے گریجوئیشن کی ہے تب سے کوئی عید ایسی نہیں جس میں مکمل چھٹی ہو۔ ہاں آپ گھر پر رہ سکتے ہیں عید کی نماز پڑھ سکتے ہیں، مگر شہر سے باہر نہیں جاسکتے۔ اگر آپ باہر جاتے ہیں اور آپ کو کال آجائے تو آپ کو واپس آنا پڑتا ہے۔
ڈاکٹر صائمہ قریشی: دیکھیے ابھی تو میں پروفیشنل ہوں تو بطور کنسلٹنٹ مجھے چھٹیاں ملتی ہیں لیکن جب ہاوس جاب چل رہی تھی تو بطور ریسیڈینٹ ڈیوٹیز لگتی تھیں تو اس وقت تو ظاہر ہے عید کے موقع پر ہونے والے ایونٹس کو یاد کرتے تھے۔ لیکن ہم کوشش کرتے تھے کہ جتنے بھی لوگ عید کے پُرمسرت موقع پر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے سب چھوڑ کر ہسپتال آئیں ہیں، وہ سب مل کر ہسپتال میں ہی عید کی خوشیوں کو انجوائے کرسکیں۔
اس کا طریقہ کچھ بھی ہوسکتا تھا، جیسے کچھ کھانے کے لیے منگوالیا، مریضوں میں کچھ تقسیم کردیا۔ چاند رات میں ہم اکثر یہ کیا کرتے تھے کہ مریضوں کے چہروں پر خوشیاں لانے کے لیے اُن میں کچھ تحائف تقسیم کردیتے تھے۔ لیکن ہاں، اگر آپ پوچھیں گے کہ اُس وقت کیا کیفیت ہوتی تھی تو یقیناً خوشی اور غمی کا ملاپ ہوا کرتا تھا۔
ڈاکٹر مہوش لاکھانی: عید پر معمول کے مطابق ڈیوٹی انجام دینی ہوتی ہے، لیکن اگر ہمارے ساتھ غیر مسلم ڈاکٹرز کام کررہے ہوتے ہیں تو وہ عید کے موقع پر ہماری جگہ ہسپتال آنے کی ذمہ داری انجام دیکر کچھ آسانی فراہم کردیتے ہیں، اور اسی طرح ان کے تہواروں میں ہم بھی ایسے ہی کرتے ہیں۔ لیکن جن ہسپتالوں میں غیر مسلم ڈاکٹرز نہیں ہوتے تو وہاں تو ہر حال میں ڈیوتی دینی ہی ہوتی ہے۔