ایمرجنسی میں خاندان کو چھوڑ کر ڈاکٹر اپنی عید کس طرح مناتے ہیں؟

ایمرجنسی میں خاندان کو چھوڑ کر ڈاکٹر اپنی عید کس طرح مناتے ہیں؟

فہیم پٹیل

’میں اللہ اور یہاں پر موجود تمام لوگوں کے سامنے اس بات کا حلف اُٹھاتا ہوں/ اُٹھاتی ہوں کہ میں اپنے تمام اساتذہ کو عزت و احترام دوں گا /دوں گی۔ میں اپنے کام کو پوری ایمان داری اور لگن سے کروں گا / کروں گی۔ میری پہلی ترجیح میرے مریض کی صحت ہوگی اس میں کسی بھی مذہب، قومیت، نسل یا کسی بھی سیاسی یا سماجی تحریک کو اپنی ڈیوٹی اور مریض کے درمیان نہیں لاؤں گا / لاؤں گی۔ میں وعدہ کرتا ہوں / کرتی ہوں کہ اپنا یہ کام آزادی اور وقار سے سر انجام دوں گا / دوں گی۔‘

یہ وہ حلف ہے جو طب کی تعلیم حاصل کرنے سے پہلے میڈیکل طلباء اٹھاتے ہیں۔ مریضوں کے علاج و معالجے میں کوئی تفریق تو کجا یہ مسیحا صفت لوگ تو اپنی خوشی، غمی کو بالائے طاق رکھ کر انسانیت کی خدمت کا مقدس فریضہ انجام دیتے ہیں۔

محاذ ہو یا دہشتگرد حملے کے بعد ہسپتالوں میں نافذ کی گئی ایمرجنسی، یہ طبیب درد کی دوا کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ عظیم پیشہ قربانیاں بھی عظیم مانگتا ہے، ذاتی خوشی و غمی تو ایک طرف قومی دن یا مذہبی تہوار کی چھٹیوں کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔ اسپرٹ اور دوائیوں کی بو میں کبھی پوری پوری رات جاگ کر گزاری جاتی ہے تو کبھی کسی بھی ہنگامی صورت میں گھر پر گہری نیند سے جاگ کر فوراً ہسپتال پہنچنا پڑتا ہے۔

لیکن یہ سب قربانیاں دینے والے ہمارے مسیحا اپنی اس کوشش کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپنی کوششوں سے مطمئن ہیں؟ کیا وہ تھک تو نہیں گئے؟ کیا ان کو یہ پچھتاوا تو نہیں ہے کہ کاش وہ ڈاکٹر بننے کے بجائے کسی اور پیشے کا انتخاب کرلیتے تھے۔

یہ مسیحا کیا سوچتے ہیں؟ آئیے ان سے خود جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

عید پر کیا معمول ہوتا ہے؟

ڈاکٹر سیمی جمالی: معمول یہ ہے کہ صبح سب سے پہلے ہسپتال وزٹ کرنا ہوتا ہے کیوں کہ میری ایمرجنسی میں ڈیوٹی ہوتی ہے، اس لیے نماز کے بعد ایمرجنسی کا وزٹ کرنا میرا معمول ہے اور مریضوں کو دیکھنے کے بعد گھر واپس آتی ہوں۔ پھر اگر کبھی ضرورت پڑے، جو تقریباً ہمیشہ ہی پڑتی ہے، تو مجھے ہسپتال آنا پڑتا ہے کیوں کہ عموماً اسٹاف کی کمی کے ساتھ ساتھ عید پر دیگر مسائل کا بھی سامنا ہوتا ہے۔ کئی دفعہ عید پر فائرنگ کے معاملات ہوجاتے ہیں۔ جب گزشتہ سالوں میں حالات خراب ہوا کرتے تھے تو ایسا بہت ہوتا تھا اور ہم ہمیشہ ضرورت پڑنے پر ڈیوٹی پر آتے تھے۔ تو ایسی صورت میں گھر کو بعد میں اور ڈیوٹی کو پہلے رکھا ہے، کیوں کہ مجھے اپنے پیشے سے محبت ہے۔ میری نوکری بہت سخت ہے اور میں نے ہمیشہ اسے اپنے دل سے نبھایا ہے، اس لیے کبھی یہ نوکری یا پیشہ چھوڑنے کا دل بھی نہیں کیا۔

ڈاکٹر اللہ جڑیو: آج تک کبھی عید گھر پر نہیں کی۔ ڈبل ڈیوٹی کرنے کی وجہ سے کبھی سرکاری ڈیوٹی لگ جاتی ہے تو کبھی پرائیویٹ۔ شیڈول یہ ہوتا ہے کہ اگر چھٹی مل بھی جائے تو شہر نہیں چھوڑ سکتے۔ جب سے گریجوئیشن کی ہے تب سے کوئی عید ایسی نہیں جس میں مکمل چھٹی ہو۔ ہاں آپ گھر پر رہ سکتے ہیں عید کی نماز پڑھ سکتے ہیں، مگر شہر سے باہر نہیں جاسکتے۔ اگر آپ باہر جاتے ہیں اور آپ کو کال آجائے تو آپ کو واپس آنا پڑتا ہے۔

ڈاکٹر صائمہ قریشی: دیکھیے ابھی تو میں پروفیشنل ہوں تو بطور کنسلٹنٹ مجھے چھٹیاں ملتی ہیں لیکن جب ہاوس جاب چل رہی تھی تو بطور ریسیڈینٹ ڈیوٹیز لگتی تھیں تو اس وقت تو ظاہر ہے عید کے موقع پر ہونے والے ایونٹس کو یاد کرتے تھے۔ لیکن ہم کوشش کرتے تھے کہ جتنے بھی لوگ عید کے پُرمسرت موقع پر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے سب چھوڑ کر ہسپتال آئیں ہیں، وہ سب مل کر ہسپتال میں ہی عید کی خوشیوں کو انجوائے کرسکیں۔

اس کا طریقہ کچھ بھی ہوسکتا تھا، جیسے کچھ کھانے کے لیے منگوالیا، مریضوں میں کچھ تقسیم کردیا۔ چاند رات میں ہم اکثر یہ کیا کرتے تھے کہ مریضوں کے چہروں پر خوشیاں لانے کے لیے اُن میں کچھ تحائف تقسیم کردیتے تھے۔ لیکن ہاں، اگر آپ پوچھیں گے کہ اُس وقت کیا کیفیت ہوتی تھی تو یقیناً خوشی اور غمی کا ملاپ ہوا کرتا تھا۔

ڈاکٹر مہوش لاکھانی: عید پر معمول کے مطابق ڈیوٹی انجام دینی ہوتی ہے، لیکن اگر ہمارے ساتھ غیر مسلم ڈاکٹرز کام کررہے ہوتے ہیں تو وہ عید کے موقع پر ہماری جگہ ہسپتال آنے کی ذمہ داری انجام دیکر کچھ آسانی فراہم کردیتے ہیں، اور اسی طرح ان کے تہواروں میں ہم بھی ایسے ہی کرتے ہیں۔ لیکن جن ہسپتالوں میں غیر مسلم ڈاکٹرز نہیں ہوتے تو وہاں تو ہر حال میں ڈیوتی دینی ہی ہوتی ہے۔

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

گھر اور ہسپتال میں گزرنے والی عید میں آپ کے نزدیک فرق کیا ہے؟

ڈاکٹر سیمی جمالی: ہسپتال کام کی جگہ سے زیادہ اب ہمارا دوسرا گھر ہے۔ یہاں کام کرنے والے لوگ خاندان کی طرح ہوتے ہیں جو ہماری ہی طرح عید چھوڑ کر آئے ہوتے ہیں۔ ہم جونیئر اسٹاف کا خیال رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ گھر پر خوشگوار انداز میں عید گزار سکیں۔ مگر ہم نے ان کے لیے مثال بھی قائم کی ہے تاکہ کل جب وہ ہماری پوزیشن پر آئیں تو انہیں دوسروں کا خیال رکھنے کی عادت ہو۔ رمضان ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ ہم اپنے لوگوں اور اپنے پیشے کے ساتھ انصاف کریں کیوں کہ یہ کوئی معمولی پیشہ نہیں ہے۔ آپ کو اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے دو قدم آگے بڑھ کر کام کرنا پڑتا ہے۔

ڈاکٹر اللہ جڑیو: ہم اپنے بچوں اور گھر والوں کے ساتھ عید کو مِس کرتے ہیں، دل تو کرتا ہے مگر بچوں کو بتانا پڑتا ہے کہ ہمیں انسانیت کی خدمت کرنی ہے۔

پڑھیے: ایک پردیسی کی عید کی روداد

ڈاکٹر صائمہ قریشی: میں صرف گھر والوں کو مس کرتی تھی زیادہ، لیکن میں جانتی تھی کہ یہ میری ذمہ داری ہے، لہٰذا ضرورت کے وقت مجھے یہاں بھی ہونا ہے۔ پھر میں اپنی خوشیوں کی تلاش وہاں موجود مریضوں میں ڈھونڈنا شروع کردیتی تھی۔ میں یہ سوچتی تھی کہ آج کے دن تو بس یہی میری فیملی ہے۔

ڈاکٹر مہوش لاکھانی: دیکھیے، گھر کی عید تو بہرحال الگ ہوتی ہے کیونکہ آپ اپنے گھر والوں کے ساتھ ہوتے ہیں جس کا کوئی نعم البدل نہیں، جبکہ دوسری طرف ہسپتال میں تو عید مریضوں کے ساتھ ہوتی ہے جبکہ آپ ہی طرح کام کی غرض سے آئے ہوئے آپ کے کولیگز بھی ہوتے ہیں جن کے ساتھ مل کر وقت اچھی طرح گزارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگرچہ ان کے ساتھ بھی عید کی خوشیوں کا سامان ہوجاتا ہے، لیکن بہرحال ہسپتال میں گھر والے تو نہیں ہوتے نا۔

عید کے موقعے پر علاج معالجے کے کام سے کبھی بے زاری ہوتی ہے؟

ڈاکٹر سیمی جمالی: کبھی بیزاری نہیں ہوئی ورنہ میں اسی وقت یہ پیشہ چھوڑ دیتی۔

ڈاکٹر اللہ جڑیو: میں انسانیت کی خدمت کے اپنے پیشے سے خوش ہوں۔ میں نے کبھی بھی نہیں سوچا کہ مجھے پیسے کے لیے کام کرنا ہے، مجھے صرف اپنے مریضوں کے لیے کام کرنا ہے۔ محسوس تو ہوتا ہے کبھی کبھی کہ یہ ایک thankless نوکری ہے۔ مریض اگر ٹھیک ہوجائے تو سب ٹھیک، لیکن اگر خدانخواستہ مریض کو کچھ ہوجائے تو ڈاکٹر پر الزام لگتا ہے کہ اس نے مار دیا یا اس نے غلط انجکشن دے دیا۔

پاکستان بالخصوص کراچی میں یہ ایک غیر محفوظ نوکری ہے۔ اگر مریض ٹھیک ہوجائے تو کہا جاتا ہے کہ یہ تو آپ کی ذمہ داری تھی جو آپ نے پوری کی کیوں کہ آپ ڈاکٹر ہیں۔ اگر موت واقع ہوجائے تو کہتے ہیں کہ آپ نے مارا ہے۔

میری ایمرجنسی میں ڈیوٹی ہے۔ ایمرجنسی میں سیریس مریض آتے ہیں۔ ڈاکٹر کبھی بھی نہیں چاہتا کہ اس کا مریض جان سے جائے لیکن اگر تمام تر کوششوں کے باوجود سانسوں کی ڈور ٹوٹ جائے لواحقین شور ہنگامہ کرتے ہیں، جسے دیکھ کر دل دکھی ہوتا ہے کہ ہم نے خلوص سے کام کیا ہے اور بدلے میں ہمیں یہ ملتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے یہ احساس ہوتا ہے مگر پھر ہم خود کو سمجھاتے ہیں کہ وہ لوگ دکھ کی کیفیت میں ہیں اس لیے ہمیں برداشت کر لینا چاہیے۔

ابھی حال ہی میں، میں نے اپنے کام کا دباؤ 12 گھنٹے کرلیا ہے صبح 6 گھنٹے شام 6 گھنٹے۔ سفید پوشی برقرار رکھنے کے لیے محنت اور جدوجہد کرنی پڑتی ہے ورنہ عام معاشرے میں لوگ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر بہت کماتے ہیں مگر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ڈاکٹر بننے کے لیے رشتوں کی کتنی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ اس کے بعد بھی یہ ایک thankless نوکری ہے۔ اور ایک ڈاکٹر کو سفید پوشی برقرار رکھنے کے لیے ایک نوکری کافی نہیں ہوتی۔

اتنی مشکل پڑھائی اور پوسٹ گریجوئیشن کے بعد بھی آپ کو وہ مقام نہیں ملتا جو ایک عام سی ایس ایس افسر کو یا 17 گریڈ کے افسر کو مل جاتا ہے۔ میرا بچہ بیمار ہوجائے تو مجھے اپنی جیب سے اخراجات کرنے پڑتے ہیں جو مراعات ہوتی ہیں وہ ہمیں دستیاب نہیں ہوتیں۔ بس یہ خوشی کی بات ہے کہ ہمارا مریض صحت یاب ہوجائے۔

ڈاکٹر صائمہ قریشی: ففٹی، ففٹی (ہنستے ہوئے)۔ میں یہ نہیں کہوں گی کہ ایسا بالکل نہیں ہوتا تھا، لیکن بیزاری سے زیادہ اداسی ہوتی تھی کہ آج بھی ہسپتال جانا ہے، کاش آج میری نہیں کسی اور کی ڈیوٹی ہوتی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھیوں اور مریضوں کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے یہ اداسی خوشی میں تبدیل ہوجاتی تھی. کیونکہ دورانِ ہاوس جاب یا ریسیڈینسی آپ یہ سمجھیے ایک ڈاکٹر گھر سے زیادہ ہسپتال میں وقت گزار رہا ہوتا ہے. آپ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ بعض اوقات تو لگاتار 38 گھنٹوں تک ہسپتال میں ہی رہنا پڑتا تھا اور آپ گھر نہیں جاسکتے تھے۔

لیکن اس حوالے سے اگر آپ پوچھیں کہ اتنی مشکل کے باوجود بھی یہ کام کیسے کرلیتے ہیں تو اس کا سادہ سا جواب تو عظیم مقصد ہے، کیونکہ ہمارے ایسا کرنے سے کسی انسان کی جان بچ سکتی ہے، اور اس سے بڑھ کر ہماری محنت کا انعام ہو نہیں سکتا۔ پھر جب وہ صحت یاب ہوجاتے ہیں اور ہمارے لیے دعا کرتے ہیں تو شاید یہ ہمارے لیے سب سے قیمی لمحات ہوتے ہیں.

ڈاکٹر مہوش لاکھانی: نہیں نہیں، اگر ایسا ہوتا تو یہ کام نہیں کرتی۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ عید کے دن گھر سے ہسپتال جاتے ہوئے تھوڑا بُرا لگ رہا ہوتا ہے کہ گھر والے سارے عید منارہے ہیں اور آپ ہسپتال جارہے ہیں لیکن وہاں پہنچ کر پھر زیادہ محسوس نہیں ہوتا کہ آپ اپنے کام میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ پھر سب سے اہم بات یہ کہ اگر آپ کی وجہ سے کسی کو صحت مل جائے، کسی کو راحت مل جائے تو بہرحال اس سے بڑھ کر خوشی اور کیا ہوسکتی ہے۔ بس یہی سوچ کر خوشی ہوتی ہے کہ ہماری تھوڑی سی قربانی کی وجہ سے بہت سو کو سکون اور راحت مل رہی ہے۔

مزید پڑھیے: ڈاکٹر سیمی جمالی: ایک باہمت خاتون

فرض کی ادائیگی کے سبب جب دعوتوں سے محروم اور دوست و احباب سے ملاقات نہیں ہوپاتی تو ان کا ردِ عمل کیسا ہوتا ہے؟

ڈاکٹر سیمی جمالی: یہ ناراضگیاں تو اکثر ہوجاتی ہیں مگر اب میں نے ان کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔ خاندان اور دوستوں نے بھی یہ بات سمجھ لی ہے۔ مگر مجھے اپنے بچوں کے لیے بُرا محسوس ہوتا ہے کیوں کہ بچے کہتے ہیں کہ امّی کی نوکری ان کے لیے کسی بھی چیز سے زیادہ اہم ہے، مگر وہ اب آہستہ آہستہ اس بات کو سمجھ چکے ہیں۔

ڈاکٹر اللہ جڑیو: شروع کے دنوں میں تو وہ بیزار ہوتے تھے مگر اب عادی ہوگئے ہیں۔ اب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ مجھے ایمرجنسی کے لیے جانا ہے۔ گھر والوں کو بتانا پڑتا ہے کہ ایمرجنسی ہے ڈیوٹی میں جانا ضروری ہے۔ میری اہلیہ اب یہی کہتی ہیں کہ اپنے بچوں کو ڈاکٹر نہیں بنائیں گے۔

ڈاکٹر صائمہ قریشی: وہ تو بس یہی کہتے تھے کہ اتنی مشکل پڑھائی کے بعد بھی ہسپتال میں ہی وقت گزارنا ہے تو ڈاکٹر کیوں بنی۔ لیکن ہاں اگر آپ گھروالوں جیسے والدین اور بہن بھائیوں کی بات کریں تو وہ سمجھتے تھے اس صورتحال کو۔

— اے ایف پی/فائل
— اے ایف پی/فائل

ڈاکٹر مہوش لاکھانی: جو ڈاکٹرز ہوتے ہیں نا وہ تو سمجھ جاتے ہیں کہ ہاں ان کا جانا ضروری ہے لیکن جو دیگر رشتہ دار اور دوست ہیں وہ تو بس یہی سمجھ رہے ہیں کہ ہمیں صرف اپنے ہسپتال کی فکر ہے اور اس کے علاوہ کسی کی پرواہ ہی نہیں ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ ان کو سمجھانا بہت ہی مشکل ہوجاتا ہے۔ لیکن آپ کچھ بھی نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ آپ نے تو یہ کام کرنا ہی ہے۔

عید کے موقعے پر گھر میں غیر موجودگی کی وجہ سے بچوں کی ناراضگی کو کیسے ختم کرتیں/ کرتے ہیں؟

ڈاکٹر سیمی جمالی: بچے جب چھوٹے تھے تو ان کو موقع ملنے پر ڈرائیو پر یا میکڈونلڈز لے جاتی تھی۔ اب وہ بڑے ہوگئے تو ان کے پاس اپنے دوست ہیں اب میں کہوں گی کہ معاملہ الٹا ہے اور ان کے پاس امّی کے لیے وقت نہیں ہوتا۔ اب میں وہ وقت تلاش کرتی ہوں جب وہ میرے ساتھ بیٹھیں۔

ڈاکٹر اللہ جڑیو: بچوں کو یہی سمجھاتے ہیں کہ یہ کام آپ کے لیے ہے۔ اگر آپ بیمار ہوجائیں تو آپ کو کون دیکھے گا؟ مثبت انداز میں بچوں کو سمجھانا پڑتا ہے۔

ڈاکٹر صائمہ قریشی: ابھی تو میں غیر شادی شدہ ہوں (اور پھر زور سے قہقہہ)۔ اس لیے بچوں کا تو بتا نہیں سکتی اور گھر والے کبھی ناراض ہوئے نہیں اس لیے اس سوال کا جواب میں نہیں دے سکتی۔

ڈاکٹر مہوش لاکھانی: چونکہ بچے تو ابھی چھوتے ہیں تو آسانی سے مان جاتے ہیں۔ ان کو یہ معلوم ہے کہ مما ہسپتال جارہی ہیں اور ان کو یہ بتایا ہے کہ ایسا کرنے سے اللہ تعالی خوش ہوں گے، اور ہسپتال میں مریض مما کا انتظار کررہے ہیں کیونکہ وہ بیمار ہیں اور انہیں اس وقت مما کی ضرورت ہے۔ اگر ان کے پاس نہیں جائیں گے تو پھر وہ کیسے عید منائیں گے، تو اتنی باتیں جب بچوں کے سامنے کی جاتی ہیں تو وہ بات کو سمجھ جاتے ہیں۔

— فوٹو اے پی
— فوٹو اے پی

مریضوں کی تیمارداری کے لیے اپنی عیدیں قربان کرنے پر شخصیت میں فخر کا عنصر تو پیدا ہوتا ہوگا؟

ڈاکٹر سیمی جمالی: سب سے اہم چیز یہ ہے کہ آپ کو اپنے کام سے آسودگی کا احساس ہو اور میرے اندر یہ چیز ہے۔ میرا جسم اور میری صحت مجھے اس چیز کی اجازت دیتے ہیں کہ میں اور کام کروں، اور میں یہ صرف اللہ کی رضا کے لیے کرتی ہوں، کسی کو دکھانے کے لیے نہیں۔

ڈاکٹر اللہ جڑیو: جب ہمارا مریض خوش ہوتا ہے تو ہم بھی خوش ہوجاتے ہیں۔ اگر کوئی مریض صحتیاب ہو کر ہمیں دل سے دعا دے تو ہمیں بہت خوشی ہوتی ہے۔ بحیثیت ڈاکٹر ہمارا انعام یہی ہے، جس طرح سیاست کے لیے ووٹر ہوتا ہے، ہمارے لیے مریض ہے جو ہمیں عزیز ہے، وہ صحتیاب ہوجائے تو ہمارے لیے یہی بڑی بات ہے۔

ڈاکٹر صائمہ قریشی: دیکھیے، بطورِ انسان، بعض اوقات اس بھاری ذمہ داری کی وجہ سے دباؤ سا محسوس ہوتا ہے، کیونکہ آپ اپنی سماجی زندگی بھی قربان کررہے ہوتے ہیں، اپنی فیملی لائف بھی قربان کررہے ہوتے ہیں، اسی طرح بہت سارے مواقعوں پر اہم دعوتوں اور ایونٹس پر بھی نہیں جاسکتے، پھر جس مشکل طریقے سے آپ اس شعبے میں داخل ہوتے ہیں اور جس مشکل سے آپ یہ کام کررہے ہوتے ہیں کیونکہ ڈاکٹر بننا بہت ہی مشکل کام ہوتا ہے، لہٰذا اس ساری صورتحال کی وجہ سے ظاہر ہے ہم ذہنی دباؤ کا بھی شکار ہوجاتے ہیں، لیکن اس تمام تر مشکلات کے باوجود جب ایک جان بچتی ہے یا کوئی مریض اپنی تکلیف سے آزاد ہوجاتا ہے تو ہمیں بہت اطمینان اور خوشی میسر آتی ہے۔

پڑھیے: لاہور کے سرکاری ہسپتال میں میرے 10 تکلیف دہ دن

کسی انسان کی جان کو بچانا یقیناً انسان کے ہاتھ میں نہیں یہ تو اللہ تعالی کے ہی کام ہوتے ہیں، لیکن آپ کو یہ خوشی ہوتی ہے کہ اس کام کے لیے آپ کا انتخاب ہوا۔ پھر جب مریض ٹھیک ہونے کے بعد آپ کا شکریہ ادا کرتا ہے اور جب وہ دعا دے کر جاتے ہیں تو ہمارے لیے اس سے بڑھ کر کوئی اور خوشگوار لمحہ ہوتا نہیں ہے کیونکہ یہ واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ وہ دعا دل کی گہرائیوں سے آرہی ہے۔

ڈاکٹر مہوش لاکھانی: فخر تو شاید نہیں کہوں گی، لیکن یہ ضرور کہوں گی کہ یہ سب کرکے اچھا بہت لگتا ہے کہ ہماری محنت اور کوشش کی وجہ سے لوگوں کو سکون اور راحت میسر آجاتی ہے۔ یہ تو ایسا کام ہے جس میں ہمیں اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کا ثواب بھی ملتا جاتا ہے۔ پھر جب مریضوں کو دیکھیں تو وہ اللہ تعالی کے بعد ہمیں ہی امید بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں، جس کی وجہ سے ہمیں ان خوشی کے موقعوں پر بھی ہسپتال جاکر کام کرنے کی ہمت میسر آتی ہے۔


فہیم پٹیل ڈان کے بلاگز ایڈیٹر ہیں۔ آپ کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔