عمومی تاثر یہ ہے کہ 1970ء میں ہونے والے عام انتخابات، جن کے بعد سابقہ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے علیحدہ ہوگیا تھا، کے علاوہ پاکستان میں کوئی انتخابات 'آزادانہ' اور 'منصفانہ' نہیں ہوئے ہیں۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے جنرل سیکریٹری سرور باری اس سے اتفاق کرتے ہیں۔
تاریخی اعتبار سے بات کریں تو پاکستان میں اتنخابی دھاندلی کئی سطحوں پر ہوئی ہے جس میں ریاستی ادارے، اسٹیبلشمنٹ، پولنگ افسران، اور ظاہر ہے کہ سیاسی جماعتیں اور امیدوار ملوث رہے ہیں۔
دھاندلی کے مرحلے کو 3 زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
قبل از انتخابات،
انتخابات کے روز اور
بعد از انتخابات دھاندلی۔
یہاں پر ہم ان تینوں زمروں پر روشنی ڈالیں گے۔
پری پول رگنگ یا دھاندلی قبل از انتخابات
مردم شماری پر اثر انداز ہونا
مردم شماری انتخابات کے اولین اور سب سے اہم حصوں میں ہے کیوں کہ اس سے ہی یہ تعین ہوتا ہے کہ کسی بھی مخصوص آبادی (صوبے/ضلعے) کو کتنی نشستیں دی جائیں گی۔ کسی بھی صوبے کو ملنے والی نشستوں کی تعداد وہاں پر موجود آبادی پر منحصر ہوتی ہے۔ اس سال کی تعداد کے مطابق ایک قومی حلقہ اوسطاً 7 لاکھ 80 ہزار کی آبادی پر مشتمل ہوگا۔
اگر کسی علاقے کی آبادی کو اس کی حقیقی تعداد سے کم یا زیادہ دکھایا جائے، تو اس سے اس ضلعے کے لوگوں کی ووٹنگ کی قوت کو ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والوں کے مقابلے میں مضبوط یا کمزور کیا جا سکتا ہے۔
چنانچہ جو کوئی بھی دھاندلی کرنا چاہ رہا ہے، مردم شماری اس کی ترجیحات میں پہلے نمبر پر رہتی ہے۔
تو اب آپ کو معلوم ہوا کہ کیوں کچھ سیاسی جماعتیں گزشتہ سال مردم شماری کے وقت سے لے کر شور مچا رہی ہیں؟
سندھ کی 2 بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے آڈٹ کا مطالبہ کیا تھا، کیوں کہ ان کا دعویٰ تھا کہ صوبے، بالخصوص کراچی کی آبادی کو کم دکھایا گیا تھا تاکہ اسے اتنی نشستیں نہ مل سکیں جتنی کہ ملنی چاہیئں۔
1 فیصد بلاکس کے آڈٹ کے حکومتی وعدے کے باوجود نظرِ ثانی نہیں ہوئی۔ مردم شماری کے نتائج کو ویسے ہی جاری کردیا گیا اور (اگر پارٹیوں کی بات مانی جائے تو) کراچی کو اس کے جائز حق سے کم نشستیں ملی ہیں۔
’لیکن کیا مردم شماری میں دھاندلی کرنا اتنا ہی آسان ہے؟‘
فافن کے سرور باری کہتے ہیں کہ ویسے تو حالیہ مردم شماری میں دھاندلیوں کے ثبوت نہیں ملے، مگر اس کے طریقہ کار کی وجہ سے سنجیدہ سوال اٹھے ہیں۔
وہ یاد دلاتے ہیں کہ مردم شماری کے وسیع تر اعداد و شمار کی تصدیق کے لیے مردم شماری کے بعد اعشاریہ 5 فیصد گھرانوں کی رینڈم سیمپلنگ کرنے کا روایتی عمل نہیں کیا گیا، بنیادی طور پر اس لیے کیوں کہ پورا عمل نہایت جلد بازی میں کیا گیا۔ رینڈم سیمپلنگ سے معلوم ہوجاتا کہ مردم شماری کے نتائج درست تھے جب تک کہ کوئی بے قاعدگی سامنے نہ آ جاتی۔
جیری مینڈرنگ
جیسا کہ ہم نے پہلے بات کی تھی، الیکشن کمیشن ہر ضلعے کو اس کی آبادی کے اعتبار سے نشستوں کا کوٹہ دیتا ہے۔ آبادی کا تعین مردم شماری کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
ایک بار جب مردم شماری کے نتائج آجائیں تو الیکشن کمیشن کچھ ضوابط کے تحت حلقہ بندیاں کرتا ہے جو کہ (کاغذی طور پر) کمیشن کو حلقہ بندی کرتے ہوئے منصفانہ رہنے پر مجبور کرتی ہیں۔
ضابطے کے اعتبار سے تمام قومی حلقوں اور تمام صوبوں کے اندر موجود صوبائی حلقوں کو ایک ہی سائز کا ہونا چاہیے، جبکہ حلقوں کی آبادی میں صرف 10 فیصد کم یا زیادہ کا فرق ہوسکتا ہے۔ مگر کون سے علاقے (محلے، گلیاں، گوٹھ) کس حلقے میں آئیں گے، یہ فیصلہ کرنا کمیشن کا کام ہے۔
چنانچہ اگر آپ کو حلقے کی سطح پر دھاندلی کرنی ہے، تو آپ کا ہدف حلقہ بندیوں کا مرحلہ ہونا چاہیے۔