Dawnnews Television Logo

انتخابات میں دھاندلی کرنے کے 9طریقے

تاریخی اعتبار سے بات کریں تو پاکستان میں اتنخابی دھاندلی کئی سطحوں پر ہوئی ہے۔
اپ ڈیٹ 26 جولائ 2018 02:19pm

عمومی تاثر یہ ہے کہ 1970ء میں ہونے والے عام انتخابات، جن کے بعد سابقہ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے علیحدہ ہوگیا تھا، کے علاوہ پاکستان میں کوئی انتخابات 'آزادانہ' اور 'منصفانہ' نہیں ہوئے ہیں۔

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے جنرل سیکریٹری سرور باری اس سے اتفاق کرتے ہیں۔

تاریخی اعتبار سے بات کریں تو پاکستان میں اتنخابی دھاندلی کئی سطحوں پر ہوئی ہے جس میں ریاستی ادارے، اسٹیبلشمنٹ، پولنگ افسران، اور ظاہر ہے کہ سیاسی جماعتیں اور امیدوار ملوث رہے ہیں۔

دھاندلی کے مرحلے کو 3 زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

  • قبل از انتخابات،
  • انتخابات کے روز اور
  • بعد از انتخابات دھاندلی۔

یہاں پر ہم ان تینوں زمروں پر روشنی ڈالیں گے۔

پری پول رگنگ یا دھاندلی قبل از انتخابات

مردم شماری پر اثر انداز ہونا

مردم شماری انتخابات کے اولین اور سب سے اہم حصوں میں ہے کیوں کہ اس سے ہی یہ تعین ہوتا ہے کہ کسی بھی مخصوص آبادی (صوبے/ضلعے) کو کتنی نشستیں دی جائیں گی۔ کسی بھی صوبے کو ملنے والی نشستوں کی تعداد وہاں پر موجود آبادی پر منحصر ہوتی ہے۔ اس سال کی تعداد کے مطابق ایک قومی حلقہ اوسطاً 7 لاکھ 80 ہزار کی آبادی پر مشتمل ہوگا۔

اگر کسی علاقے کی آبادی کو اس کی حقیقی تعداد سے کم یا زیادہ دکھایا جائے، تو اس سے اس ضلعے کے لوگوں کی ووٹنگ کی قوت کو ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والوں کے مقابلے میں مضبوط یا کمزور کیا جا سکتا ہے۔

چنانچہ جو کوئی بھی دھاندلی کرنا چاہ رہا ہے، مردم شماری اس کی ترجیحات میں پہلے نمبر پر رہتی ہے۔

تو اب آپ کو معلوم ہوا کہ کیوں کچھ سیاسی جماعتیں گزشتہ سال مردم شماری کے وقت سے لے کر شور مچا رہی ہیں؟

سندھ کی 2 بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے آڈٹ کا مطالبہ کیا تھا، کیوں کہ ان کا دعویٰ تھا کہ صوبے، بالخصوص کراچی کی آبادی کو کم دکھایا گیا تھا تاکہ اسے اتنی نشستیں نہ مل سکیں جتنی کہ ملنی چاہیئں۔

1 فیصد بلاکس کے آڈٹ کے حکومتی وعدے کے باوجود نظرِ ثانی نہیں ہوئی۔ مردم شماری کے نتائج کو ویسے ہی جاری کردیا گیا اور (اگر پارٹیوں کی بات مانی جائے تو) کراچی کو اس کے جائز حق سے کم نشستیں ملی ہیں۔

’لیکن کیا مردم شماری میں دھاندلی کرنا اتنا ہی آسان ہے؟‘

فافن کے سرور باری کہتے ہیں کہ ویسے تو حالیہ مردم شماری میں دھاندلیوں کے ثبوت نہیں ملے، مگر اس کے طریقہ کار کی وجہ سے سنجیدہ سوال اٹھے ہیں۔

وہ یاد دلاتے ہیں کہ مردم شماری کے وسیع تر اعداد و شمار کی تصدیق کے لیے مردم شماری کے بعد اعشاریہ 5 فیصد گھرانوں کی رینڈم سیمپلنگ کرنے کا روایتی عمل نہیں کیا گیا، بنیادی طور پر اس لیے کیوں کہ پورا عمل نہایت جلد بازی میں کیا گیا۔ رینڈم سیمپلنگ سے معلوم ہوجاتا کہ مردم شماری کے نتائج درست تھے جب تک کہ کوئی بے قاعدگی سامنے نہ آ جاتی۔

جیری مینڈرنگ

جیسا کہ ہم نے پہلے بات کی تھی، الیکشن کمیشن ہر ضلعے کو اس کی آبادی کے اعتبار سے نشستوں کا کوٹہ دیتا ہے۔ آبادی کا تعین مردم شماری کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

ایک بار جب مردم شماری کے نتائج آجائیں تو الیکشن کمیشن کچھ ضوابط کے تحت حلقہ بندیاں کرتا ہے جو کہ (کاغذی طور پر) کمیشن کو حلقہ بندی کرتے ہوئے منصفانہ رہنے پر مجبور کرتی ہیں۔

ضابطے کے اعتبار سے تمام قومی حلقوں اور تمام صوبوں کے اندر موجود صوبائی حلقوں کو ایک ہی سائز کا ہونا چاہیے، جبکہ حلقوں کی آبادی میں صرف 10 فیصد کم یا زیادہ کا فرق ہوسکتا ہے۔ مگر کون سے علاقے (محلے، گلیاں، گوٹھ) کس حلقے میں آئیں گے، یہ فیصلہ کرنا کمیشن کا کام ہے۔

چنانچہ اگر آپ کو حلقے کی سطح پر دھاندلی کرنی ہے، تو آپ کا ہدف حلقہ بندیوں کا مرحلہ ہونا چاہیے۔

ایک بار پھر، اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ اس دفعہ حلقہ بندیوں میں بے قاعدگی سے کام لیا گیا ہے، مگر پھر بھی حلقہ بندیاں کرتے وقت کئی ضوابط کو نظرانداز کیا گیا ہے۔

سرور باری نے ڈان کو بتایا کہ ’آبادی میں 10 فیصد فرق کے قاعدے کو کم از کم 81 قومی حلقوں اور سیکڑوں صوبائی حلقوں میں توڑا گیا ہے‘۔ انہیں خدشہ ہے کہ جیری مینڈرنگ ہوئی ہوگی۔

جیری مینڈرنگ کا مطلب ایسی حلقہ بندیاں کرنا ہوتا ہے کہ ووٹروں کی حمایت کے باوجود ایک سیاسی فریق کو دوسرے کے مقابلے میں انتخابات میں نقصان اٹھانا پڑے۔

جیری مینڈرنگ سے دو بنیادی مقاصد حاصل ہوتے ہیں: اس سے کئی ضلعوں میں مخالفین کی ووٹر حمایت ماند پڑجاتی ہے اور ووٹر بھی ایک ضلعے تک محدود ہوکر رہ جاتے ہیں۔

یہ بنیادی طور پر قبل از انتخابات دھاندلی کا سب سے زیادہ بدنیتی پر مبنی مرحلہ ہے کیوں کہ یہ بند دروازوں کے پیچھے ہوتا ہے۔ یہ حربہ سیاسی جماعتوں کے حلقہ وار نتائج کو برباد کرکے رکھ دیتا ہے جبکہ وہاں موجود ووٹروں کی حقیقی تعداد کچھ اور نتائج پیدا کرسکتی ہے۔

اپنے مخالف امیدوار کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کروانا

اس انتخابی موسم میں امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کی پہلے سے زیادہ جانچ پڑتال ہوئی کیوں کہ سپریم کورٹ نے بذاتِ خود اس معاملے میں کافی دلچسپی لی ہے اور گزشتہ انتخابات کے برعکس اس دفعہ کئی امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی ریٹرننگ افسران نے مسترد کیے ہیں۔

ویسے تو اپنے مخالفین کے کاغذاتِ نامزدگی کی قبولیت کو چیلنج کرنے کے قانونی طریقے موجود ہیں، مثلاً ان کے ماضی یا حال سے کوئی متنازع چیز ڈھونڈ نکالنا، مگر یہ یقینی طور پر مخالف امیدوار کی نااہلی کی بنیاد نہیں بن سکتے۔

فافن کے عہدیدار کہتے ہیں کہ امیدوار کئی مرتبہ ناجائز طریقوں سے ریٹرننگ افسران کو اپنی جانب کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کئی مرتبہ کامیاب بھی ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے لیے مقابلہ آسان ہوجاتا ہے۔ مگر نااہل ہونے والے امیدوار کے پاس اعلیٰ عدالت میں اپیل کرنے کا حق بھی ہوتا ہے اور جب تک کہ ان کی ذاتی زندگی کی کھوج بین کرتے ہوئے آپ کے ہاتھ کوئی ٹھوس چیز نہ لگ جائے، تب تک ان کو دیوار سے لگانا نہایت مشکل ہوتا ہے۔

انتخابات کے دن دھاندلی

انتخابات کے دن دھاندلی کرنا شاید انتخابات کا پانسہ پلٹنے کا سب سے اہم (اور سب سے زیادہ اشتعال انگیز) طریقہ ہوتا ہے، اور اس کے کئی طریقے ہیں۔

پولنگ بوتھ پر قبضہ

ایک دفعہ جب کوئی امیدوار قبل از انتخابات دھاندلی میں اپنی پوری کوشش کرلے، تو پھر اسے اگلا موقع انتخابات کے دن دستیاب ہوتا ہے۔

امیدوار کے لیے سب سے کارگر طریقہ اپنے اثر و رسوخ والے علاقوں میں پولنگ بوتھ پر قبضہ کرنا ہوتا ہے۔ یا تو یہ انتخابی افسران کو اپنی جانب کرکے کیا جاتا ہے یا پھر انہیں چپ رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

باری کہتے ہیں کہ یہ سب سے عام طریقہ ہے اور اکثر انتخابی افسران کی ملی بھگت سے ہوتا ہے، مگر یہ صرف 15 سے 20 فیصد پولنگ اسٹیشنز پر ہی ہوتا ہے۔

مگر ان کے نزدیک یہ 15 سے 20 فیصد بھی انتخابی نتائج تبدیل کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جس قدر چھپائی جا سکے، اس قدر دھاندلی کی جاتی ہے۔‘

باری کہتے ہیں کہ یہ طریقہ سب سے زیادہ آسان خواتین کے پولنگ اسٹیشنز پر ہوتا ہے جہاں برقعے کام آتے ہیں اور وہ مردہ افراد جن کا اب تک انتخابی فہرستوں سے اخراج نہیں ہوا ہوتا، ان کی فہرستوں کے ذریعے دھاندلی کرنے والے اپنے امیدوار کے حق میں اضافی ووٹ ڈالتے ہیں۔

ووٹوں کی گنتی پر اثرانداز ہونا

باری یاد کرتے ہیں کہ ’میر ظفر اللہ خان جمالی 2013ء کے انتخابات تقریباً 4000 ووٹوں سے جیت گئے تھے مگر پھر بھی ووٹوں کی گنتی کے دوران تقریباً 30 ہزار ووٹوں کو مسترد کر دیا گیا۔‘

یہ صرف ایک مثال ہے کہ کیسے ووٹوں کی گنتی کا مرحلہ غلطیوں سے پاک نہیں ہے۔

این اے 226 نصیرآباد کم جعفرآباد کے نتائج دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 25,562 ووٹر مسترد ہوئے تھے جبکہ میر ظفراللہ جمالی اور میر سلیم احمد کھوسہ کے بیچ فتح کا مارجن 6000 سے بھی کم تھا۔

باری کہتے ہیں کہ 2013ء کے انتخابات میں 35 حلقوں کے اندر جیت کا مارجن مسترد ہونے والے ووٹوں سے کم تھا، جس کا مطلب ہے کہ اگر ان ووٹوں کو مسترد کرنے کے بجائے قبول کرلیا جاتا تو جیتنے والے امیدوار مختلف ہوتے۔

مگر یہ کیسے ممکن ہوتا ہے؟

پریزائیڈنگ افسران انتخابی دھاندلی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں کیوں کہ انہیں یہ یقینی بنانا ہوتا ہے کہ تمام پولنگ ایجنٹ گنتی کے وقت موجود ہوں۔ مگر کبھی کبھار پولنگ ایجنٹوں کو گنتی کے مرحلے سے نکال دیا جاتا ہے جس سے اپنی مرضی کے مطابق نتائج تبدیل کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ چنانچہ ناکام امیدوار کے پاس مستقبل میں انتخابات کو چیلنج کرنے کا کوئی ثبوت نہیں رہتا۔

مگر اس دفعہ ووٹوں کی گنتی میں دھاندلی کرنا آسان نہیں ہوگا۔ الیکشنز ایکٹ 2017ء نے یہ لازمی قرار دیا ہے کہ تمام اہم فارمز، بشمول فارم 45 (سابقہ فارم 14) پر وہاں موجود تمام پولنگ ایجنٹوں کے دستخط ہوں۔

فارم 45 ووٹوں کی گنتی کا پرچہ ہوتا ہے اور جب اس پر سیاسی جماعتوں کے نمائندہ پولنگ ایجنٹ دستخط کردیں تو اس کا الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ حتمی اعداد و شمار کے ساتھ موازنہ آسان ہوجاتا ہے کیوں کہ اس پر ہر پولنگ اسٹیشن سے ملنے والے ووٹوں کی تعداد لکھی ہوئی ہوتی ہے۔

اس سے پہلے امیدواروں کے پاس اس حوالے سے کوئی ثبوت نہیں ہوتا تھا کہ گنتی میں آخری منٹ پر تبدیلی کی گئی ہے۔

ووٹروں کو رشوت دینا

کچھ لوگ کہیں گے کہ مخالفین کی جانب سے ترقی کے (عمومی طور پر ادھورے) انتخابی وعدے بھی ووٹروں کو پیش کی جانے والی ایک طرح کی رشوت ہے، مگر اس کام کو کرنے کے اور بھی براہِ راست طریقے ہیں۔

ہم سب نے ووٹوں کا قیمے والے نان، بریانی کی پلیٹ اور 500 روپے کے لفافے کے عوض فروخت ہونے کا سن رکھا ہے مگر کبھی کبھی علاقے کے بااثر افراد کو دھاندلی کرنے والوں کا ساتھ دینے کے لیے زیادہ فوائد کی پیشکش کی جاتی ہے۔

اس سے بااثر لوگ یقینی بناتے ہیں کہ ان کے ماتحت لوگ وہیں ووٹ ڈالیں جس کی انہیں ہدایت دی گئی ہے۔ 'ووٹنگ کی ہدایات' اکثر اوقات جانی و مالی نقصان کی کھلی یا پوشیدہ دھمکیوں کے ساتھ دی جاتی ہیں۔

بااثر شخص کو رشوت دینا ہمیشہ انفرادی ووٹر کو رشوت دینے سے زیادہ بہتر رہتا ہے (کم از کم کہنے کی حد تک) کیوں کہ یہ یقینی نہیں بنایا جاسکتا کہ آپ کے خرچے پر بریانی کھانے والا شخص بیلٹ پیپر پر آپ کے ہی نام پر ٹھپہ بھی لگائے گا یا نہیں۔

عوام کے تاثر پر اثر انداز ہونا

ایک اور طریقہ جس سے سیاسی جماعتیں اور اداکار انتخابات پر اثرانداز ہو سکتے ہیں، وہ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے مشتبہ سرویز اور پولز کے ذریعے عوام کے تاثر پر اثرانداز ہونا ہے۔

میڈیا اور پہلے سے طے شدہ نتائج والے سرویز کو اکثر کنٹرول کیا جاسکتا ہے تاکہ عوام میں کسی بھی سیاسی جماعت کا کافی خراب تاثر پیدا ہو اور ان کے جیتنے کے امکانات ماند پڑ جائیں۔

پاکستان میں 'خفیہ طاقتوں' کی جانب سے کسی مخصوص سیاسی جماعت کی حمایت کرنے کی افواہیں، جو نئے اور روایتی میڈیا کے ذریعے پھیلتی ہیں، وہ بھی ووٹروں کے تاثر پر اثرانداز ہوتی ہیں۔

اس کے علاوہ میڈیا پر بھی دباؤ ڈالا جاسکتا ہے تاکہ مخالف پارٹی یا پارٹیوں کو کافی ایئرٹائم یا پھر منصفانہ کوریج نہ ملے۔

یہ تمام اقدامات 'سوئنگ ووٹ' کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔ سوئنگ ووٹ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا ذہن پختہ نہیں ہوتا اور وہ بس 'عوام کی دیکھا دیکھی' کسی مخصوص سیاسی جماعت کو ووٹ ڈال رہے ہوتے ہیں۔

این اے 120 ماڈل

گزشتہ سال سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی نااہلی کی وجہ سے خالی ہونے والی این اے 120 کی نشست کہنے کے اعتبار سے 'منفرد' تھی۔

مسلم لیگ (ن) نے شکایت کی کہ اس کے یو سی چیئرمین اور دیگر مقامی رہنماؤں کو نا صرف فون کالز کے ذریعے دھمکیاں دی گئیں بلکہ پولنگ سے ایک دن قبل اٹھا لیا گیا تھا اور پھر بعد میں چھوڑ دیا گیا۔

سوشل میڈیا پر ویڈیوز بھی گردش کرتی رہیں جس میں نظر آ رہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے نشان والی 'پرچیاں' رکھنے والے ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنز سے واپس بھیجا جا رہا تھا۔

جن پرچیوں کی بات ہو رہی ہے وہ، وہ کاغذ ہوتے ہیں جنہیں انتخابات کے دن پارٹی اسٹالز پر تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں وہ اہم معلومات ہوتی ہیں جو ووٹر کو اپنا ووٹ ڈالنے میں مدد دے سکتی ہیں۔ بُرا تاثر یہ پیدا ہوا کہ پولنگ بوتھ پر موجود لوگ ان پرچیوں کی مدد سے (ن) لیگ کے ووٹروں کو پہچان گئے اور انہیں اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ ڈالنے سے روکا۔

ان تمام اقدامات کو ایک وسیع تر الیکشن انجینیئرنگ کے مرحلے کا حصہ ہونے کا الزام دیا گیا جس میں مسلم لیگ (ن) کے حریف کے طور پر تحریکِ لبیک پاکستان اور ملی مسلم لیگ جیسی چھوٹی جماعتوں کو ابھارنا بھی شامل تھا۔ تب سے لے کر اب تک ان پارٹیوں نے مزید میدان حاصل کیا ہے اور مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک کو نقصان پہنچانے کا خدشہ موجود ہے۔

مسلم لیگ (ن) نے حال ہی میں الزام لگایا کہ اس کے پارٹی رہنماؤں پر دوسری سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے، خاص طور پر اس کے مرکزی اور سخت ترین حریف پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) میں، جس میں حال ہی میں مخالف کیمپوں سے 'الیکٹیبلز' بڑی تعداد میں آئے ہیں۔

مگر یہاں پر یہ نشاندہی کرنی چاہیے کہ ان دعووں کو جو بنیادی طور پر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پیش کیے جا رہے ہیں، ان کی کبھی بھی حتمی طور پر تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔ لیکن پھر بھی یہ وہ سنگین الزامات ہیں جن کی تحقیقات ہونی چاہیے تھیں مگر کبھی ہوئی نہیں۔

2013 کا 'آر او الیکشنز' ماڈل

2013ء کے انتخابی نتائج کے اعلان کے فوراً بعد ہی عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت نے الزام لگایا کہ انتخابات میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے مقرر کردہ ریٹرننگ افسران کی ملی بھگت سے دھاندلی کی گئی تھی۔

پی ٹی آئی نے الزام لگایا تھا کہ آر اوز نے پولنگ کے اختتام کے بعد انتخابی نتائج میں تبدیلیاں کی گئیں۔ عمران خان نے دعوٰی کیا کہ جب نتائج مرتب کرنے کا وقت آیا تو کمروں میں کسی کو بھی داخلے کی اجازت نہیں دی گئی جو کہ قواعد کے خلاف تھا۔

انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ فوج دھاندلی میں ملوث تھی کیوں کہ فوجی اہلکاروں نے سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو ان کمروں میں داخل ہونے سے روک دیا تھا جہاں انتخابی نتائج مرتب کیے جا رہے تھے۔

ممکنہ دھاندلی کے وہ اشارے جن پر نظر رکھنی چاہیے

  • سیاسی جماعت کے پولنگ ایجنٹ کی پولنگ اسٹیشن پر غیر موجودگی۔ اس کا مطلب ہے کہ مخالف سیاسی جماعت یا کسی اور طاقت کا پولنگ اسٹیشن پر کنٹرول ہے۔

  • پولنگ بوتھ پر کیمرے یا سوراخ کی موجودگی: اس کا مطلب ہے کہ بیلٹ خفیہ نہیں ہے۔

  • ای سی پی کے مقرر کردہ پولنگ افسر کی جانب سے شناختی کارڈ چیک نہ کرنا۔ اگر ووٹروں کی شناخت چیک نہیں کی جا رہی تو ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک شخص ایک سے زائد بار ووٹ ڈال رہا ہو۔

  • پولنگ افسر کا ووٹر کا نام باآوازِ بلند نہ پکارنا تاکہ پولنگ ایجنٹ اسے اپنی فہرست سے حذف نہ کرسکیں۔ ایک بار پھر یہ ووٹروں کی تصدیق سے متعلق ہے۔

  • ووٹ یا کاؤنٹر فائل یا دونوں پر ٹھپے کا موجود نہ ہونا: ایسے ووٹ قابلِ قبول نہیں ہوں گے۔

میں دھاندلی کی شکایت کس طرح کر سکتی/سکتا ہوں؟

  • سیاسی جماعت کو شکایت کریں

  • الیکشن کمیشن کی مانیٹرنگ ٹیموں کو اطلاع دیں

  • پریزائیڈنگ افسر کو اطلاع دیں۔

  • بے ضابطگیوں کو سوشل میڈیا پر رپورٹ کریں۔ جہاں بھی اجازت ہو وہاں ویڈیوز بنائیں۔

  • آزاد قومی اور بین الاقوامی مبصرین کو اطلاع دیں۔

اگر انتخابات میں پہلے سے ہی دھاندلی ہوچکی ہو؟

کچھ سیاسی جماعتیں، خاص طور پر مسلم لیگ (ن) ابھی سے ہی اپنے امیدواروں کو ہراساں کیے جانے، نیب کے ذریعے گرفتاریوں اور زبردستی پارٹی ٹکٹ واپس کروائے جانے کے الزامات عائد کر رہی ہیں۔ اگر یہ الزامات درست ہیں تو یہ سب دھاندلی قبل از انتخابات میں آتے ہیں۔ مگر ان کے لیے ٹھوس ثبوت اکھٹے ابھی بھی کرنے باقی ہیں۔

یہ دیکھنا باقی ہے کہ جس دباؤ کا نواز شریف اور ان کی جماعت کو خدشہ ہے (یعنی لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے روکنا، گنتی پر اثر انداز ہونا) یا پھر وہ دھاندلی جس کا عمران خان نے گزشتہ بار مسلم لیگ (ن) پر الزام لگایا تھا (یعنی آر او الیکشنز)، وہ اس دفعہ وقوع پذیر ہوتے ہیں یا نہیں۔

سرور باری کو لگتا ہے کہ اس دفعہ انتخابات کے دن دھاندلی پہلے سے مشکل ہوگی کیوں کہ الیکشنز ایکٹ 2017ء کی شقیں گنتی کے مرحلے میں سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کی پہلے سے زیادہ شرکت یقینی بناتی ہیں، جس سے یہ مرحلہ ماضی کے مقابلے میں زیادہ شفاف ہوجائے گا۔

مگر پھر بھی حال ہی میں ہونے والے سینیٹ انتخابات نے بعد از انتخابات دھاندلی کا ایک بلیو پرنٹ فراہم کردیا ہے جسے ووٹروں کو مدِ نظر رکھنا چاہیے اور زیرِ عتاب سیاسی جماعتوں کی راتوں کی نیند اُڑ جانی چاہیے کہ کیا ہوگا اگر ان کا مینڈیٹ چرا لیا جائے؟


ڈیزائن: مشبا سعید

معلومات بشکریہ الیکشن کمیشن اور فافن

انگلش میں پڑھیں۔