اس وقت دنیا بھر میں سیاست کے بعد جو موضوع سب سے زیادہ زیرِبحث ہے وہ بڑھتی ہوئی آلودگی اور گلوبل وارمنگ ہے، جن کی وجہ سے دنیا کا ہر خطہ شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔
ماحولیات میں معمولی سی دلچسپی رکھنے والا شخص بھی فضائی، زمین اور آبی آلودگی جیسی اصطلاحات سے اچھی طرح واقف ہوگا مگر کیا آپ نے کبھی خلائی آلودگی کا ذکر سنا ہے؟
یہ آلودگی کی ایک نئی قسم ہے جس نے خلا میں انسان کی سرگرمیاں بڑھنے کے بعد جنم لیا اور دنیا بھر میں خلائی سفر کا جنون بڑھنے کے ساتھ خلا میں انسان کے پھیلائے ہوئے کچرے کی شرح بھی انتہائی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق 9.4 ٹن وزنی خلائی ملبہ اسپیس شپ اور دیگر اجسام کی صورت میں اس وقت خلا میں زمین کے گرد محوِ گردش ہے جن کی رفتار 17،500 میٹر فی گھنٹہ سے بھی زیادہ ہے۔
ان میں سب سے زیادہ تعداد ناکارہ ہوجانے والے خلائی مرکز اور مصنوعی سیاروں ( سٹیلا ئٹس ) کے بعد خلا میں بھیجے جانے والے راکٹوں کے حصوں کی بڑی تعداد کی ہے جو خلا میں آزادانہ گھوم رہے ہیں۔
اس خلا ئی آلودگی کا آغاز انسان کے خلا میں قدم رکھتے ہی ہوگیا تھا، ان میں سے زیادہ تر اجسام لو ارتھ آربٹ میں زمین سے 250 میل کی بلندی پر موجود ہیں، جب کہ کچھ اجسام اس سے بھی زیادہ بلندی پر ہیں جنھیں مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے 22 ہزار 300 کی انتہائی بلندی پر جیو اسٹیشنری مدار میں بھیجا گیا تھا۔
فوٹو بشکریہ ای ایس اے
اگرچہ خلا میں کسی حادثے یا دوسرے ذرائع سے شامل ہونے والا یہ خلائی کچرا جلد یا بدیر زمین کی طرف ہی آتا ہے کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ زمین کے بیرونی ماحول کی کشش کے اپنے جانب کھینچنے کے باعث انکی گردشی رفتار کم ہونے لگتی ہے اور نسبتا بڑے اجسام عموما رگڑ کھانے سے جل کر سینکڑوں چھوٹے حصوں میں تقسیم ہو کر سمندروں میں جا گرتے ہیں جس کی ایک حالیہ مثال چین کا خلا ئی اسٹیشن ' تیان گانگ ون' ہے جو اپریل 2018 میں زمین کے بیرونی ماحول سے رگڑ کھانے کے بعد جلتا ہوا سمندر میں جا گرا تھا۔
یہ خلائی اسٹیشن لگ بھگ چھ ماہ کے عرصے میں ڈولتا ہوا زمین کی جانب آیا اور اس دوران افواہ ساز ہر طرح کی بے سروپا خبریں پھیلاتے رہے، حالانکہ ناسا اور خود چین کی خلائی ایجنسی کی جانب سے ابتدا میں ہی بتا دیا گیا تھا کہ زیادہ امکانات یہی ہیں کہ یہ خلائی اسٹیشن سمندر میں جا گرے گا۔
اس سے پہلے روس کا خلائی اسٹیشن بھی ناکارہ ہوکر کچھ عرصے خلا میں معلق رہنے کے بعد زمین پر آ گرا تھا جس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا، خلا میں اب تک جن ممالک نے سب سے زیادہ آلودگی پھیلائی ہے ان میں روس سرِ فہرست ہے ۔
ایک اندازے کے مطابق زمین کے لو آربٹ میں 23 ہزار اجسام موجود ہیں جن میں سے 14 ہزار قابو سے باہر ہیں، ان میں سے 6 ہزار 512 تیرتے اجسام روس کی ملکیت ہیں جن میں سب سے بڑی تعداد خلا میں بھیجے جانے والے راکٹوں کے ناکارہ حصوں کی ہے۔
ان میں سے تقریباً 5 ہزار اجسام ایسے ہیں جو کنٹرول سے باہر ہیں اور آزادنہ خلا میں گھومتے رہنے کی وجہ سے کسی بھی بڑے حادثے یا ڈیزاسٹر کا سبب بن سکتے ہیں۔
روس کے بعد خلائی کچرے کی پیداوار میں دوسرا نمبر امریکا کا ہے جس کی ملکیت 6 ہزار 262 اجسام اس وقت خلا میں موجود ہیں جن میں سے 4 ہزار 684 اجسام قابو سے باہر اور انتہائی خطرناک ہیں۔
تیسرے نمبر پر چین ہے جسے اگرچہ اپنا اسپیس پروگرام شروع کیے محض 10 سے 12 سال ہی ہوئے ہیں مگر اس کے ناکارہ خلائی اسٹیشن سمیت 3 ہزار 601 اجسام زمین کے لو ارتھ آربٹ میں شامل ہو چکے ہیں ۔ ان میں زیادہ تعداد اس سٹیلائٹ کے ناکارہ پرزوں کی ہے جسے 2007 میں چین نے خود ہی خلا میں تباہ کردیا تھا۔
یعنی زمین کو صرف اندورنی آلودگی سے ہی شدید خطرات لاحق نہیں ہیں بلکہ انسان نے خلا میں بھی اسے محفوظ نہیں رہنے دیا ۔ اتنی بڑی تعداد میں چھوٹے بڑے اجسام کے زمین سے کچھ ہی بلندی پر لو ارتھ آربٹ میں شامل ہو جانے سے کسی بھی وقت کسی نئے بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔
اس کے لیے ماہرین فلکیات نے ایک نئی اصطلاح تخلیق کی ہے جسے ' کیسلر سائنڈرم ' کا نام دیا گیا ہے ۔ یہ نام امریکی خلائی ادارے ناسا کے ایک ریٹائرڈ سائنسدان ڈونلڈ کیسلر کے نام پر رکھا گیا جنھوں نے 1978 کے بعد خلائی کچرے یا اسپیس جنک پر کئی مقالے تحریر کیے تھے ۔
وہ ناسا کے جانسن اسپیس سینٹر کی جانب سے شروع کیے جانے والے اس پروگرام کا حصہ رہ چکے ہیں جس میں خلا کے سفر سے زمین کے اندورنی و بیرونی ماحول پر پڑنے والے اثرات پر تحقیق کی جا تی رہی ہے۔
ڈونلڈ کیسلر کی تحقیق کے مطابق خلا میں موجود یہ کچرا نہ صرف خلا بازوں کی آزادانہ محفوظ نقل و حرکت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ اگر یہ خلائی آلودگی اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو مستقبل میں زمین سے خلا میں راکٹ یا اسپیس شپ بھیجنا ہر گز ممکن نہیں رہے گا کیونکہ ان کے لو ارتھ آربٹ تک پہنچ کر ہی کسی بے قابو جسم سے ٹکرا جانے کے امکا نات بڑھ جائیں گے۔
جبکہ جیو اسٹیشنری آربٹ میں تیرتے اجسام خلا میں ہزاروں سالوں تک گردش میں رہ سکتے ہیں اور ان کے آپس میں ٹکرا نے اور جل کر زمین پر گرنے کے باعث بھی کوئی بڑا حادثہ رونما ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مصنوعی سیاروں کے آپس میں شدید ٹکراؤ سے زمین کے بیرونی ماحول میں ان کے چھوٹے چھوٹے اجزاء کی ایک تہہ بنتی جا رہی ہے جسے ' ڈیبریز بیلٹ' کا نام دیا گیا تھا۔
ڈونلڈ کیسلر کا کہنا ہے کہ انھوں نے اسپیس جنک پر اپنی تحقیق کا آ غاز اس وقت کیا تھا جب وہ محض 38 برس کی تھیں اور اس وقت ناسا نے ان کی تحقیق کی جانب کچھ خاص توجہ نہیں دی تھی۔
انہوں نے کہا کہ جب ان کا مقالہ چھپ کر سامنے آیا تو ناسا کے حکام نے اس مسئلے کی نزاکت اور نوعیت کو سمجھتے ہوئے ایک نئے پروگرام کا آغاز کیا جسے' آربٹل ڈیبریز پروگرام ' کا نام دیا اور انہیں اس کا انچارج مقرر کیا گیا۔
کیسلر کے مطابق خلا میں بڑھتے ہوئے کچرے سے اگلے 30 سے 40 سالوں میں ان اجسام کے آپس میں ٹکراؤ سے ہولناک تباہی ہوسکتی ہے جسے کیسلر سائنڈرم کہا جاتا ہے۔
کیسلر کی تحقیقات محض اندازوں یا تخمینوں پر ہی مبنی نہیں تھی بلکہ انھوں نے لو ارتھ آربٹ سے اس جنک کو صاف کرنے کے لیے ایک پورا منصوبہ بھی پیش کیا جسے ابتدا میں ناسا کے ماہرین کی جانب سے بہت سراہا گیا، مگر چونکہ اس کے لیے بہت زیادہ فنڈز کی ضرورت تھی لہٰذا آہستہ آہستہ ماہرین کی توجہ اس کی جانب کم ہوتی چلی گئی اور 1996 میں ڈونلڈ کیسلر کی ریٹائرمنٹ کے بعد اسے بالکل ہی بھلا دیا گیا۔
مگر گزشتہ کچھ عرصے سے اسپیس جنک کے اس مسئلے نے دوبارہ دنیا بھر کی سائنس کمیونٹی کو اپنی جانب متوجہ کرلیا جس کی وجہ زمین پر اس جنک کی وجہ سے رونما ہونے والے واقعات ہیں۔