آنسو جھیل: قدرت کی آنکھ سے ٹپکا ایک خوشی کا آنسو
آنسو جھیل: قدرت کی آنکھ سے ٹپکا ایک خوشی کا آنسو
صبح ساڑھے 3 بجے کے قریب موبائل کا الارم بجنے لگا۔ ’یار ابھی تو آنکھ لگی تھی، نیند بھی پوری نہیں ہوئی اور الارم اتنی جلدی بج گیا‘، میں آدھی نیند میں بڑبڑانے لگا۔ اتنے میں مقامی دوست منیر حسین کی آواز آئی، ’اُٹھو بھائی، ہمیں سیف الملوک جھیل پر جلدی پہنچنا ہے، کیونکہ آنسو جھیل کا ٹریک کافی طویل ہے اور ایک دن میں واپسی کافی مشکل ہوجائے گی۔‘
یہ 2 اگست کا دن تھا، جب میں ناران میں مقامی اور پشاور و لاہور سے آئے ہوئے کچھ دوستوں کے ساتھ ٹریک پر جانے کی منصوبہ بندی کرچکا تھا۔ میرے ساتھ میرا بھانجا علی سید بھی موجود تھا جو اپنی زندگی کی پہلی ٹریک کرنے جارہا تھا۔
ہمارے سامنے وادی کاغان کے 3 خوبصورت ٹریکس کے آپشن موجود تھے، آنسو جھیل، دودی پت سر جھیل اور ست سر مالا جھیلیں۔ یہ تینوں ٹریکس اگست اور جولائی کے مہینے میں انتہائی خوبصورت اور دلکش مناظر سے بھرپور ہوتے ہیں۔ اب کس ٹریک کا انتخاب کیا جائے؟ کافی دیر بحث و مباحثے کے بعد آنسو جھیل پر جانے کا پروگرام بنا۔ جیپ کا بندوبست کرنے کے لیے رات دیر تک جاگتے رہے اور جب یہ کام ہوگیا تو صبح ساڑھے 3 بجے کا الارم لگا کر کچھ دیر سستانے کے لیے اپنے ہوٹل کی چھت پر لگے خیمے میں لیٹ گئے۔
علی سید زندگی کی پہلی ٹریک پر جانے کی خوشی کی وجہ سے شاید پوری رات نیند نہیں کرسکا تھا۔ سب دوستوں نے جیپ پر اپنی اپنی جگہ سنبھالی اور ساڑھے 4 بجے کے قریب 7 لوگوں پر مشتمل ہماری ٹیم ناران سے ضروری سامان لے کر سیف الملوک کی طرف گامزن ہوگئی۔ ایک گھنٹے کی مسلسل چڑھائی چڑھتے ہوئے ہم سیف الملوک جھیل پہنچ گئے جہاں مکمل طور پر برف کا قبضہ تھا۔