اگر ڈیزائن کو حساس انداز میں ترتیب دیا جائے تو اتنی جگہ موجود ہے کہ زیادہ سے زیادہ صرف 5 فیصد آبادی کو اپنے گھروں کے زیرِ تعمیر ہونے کے دوران باہر جانا پڑے گا، باقی 95 فیصد آبادی کے وہاں رہتے ہوئے ہی ڈیولپمنٹ ہوسکتی ہے۔ باقی کی تمام آبادی صرف اپنے موجودہ گھروں سے نئے گھروں میں منتقل ہوجائے گی۔ یوں وہ سب سے بڑی مشکل دور ہوجائے گی جو ازسرِنو ڈیولپمنٹ کے منصوبوں کی راہ میں حائل ہوتی ہے اور جس سے لوگوں کو بسا اوقات کئی سال تک یا تو کرائے پر یا پھر اپنے رشتے داروں کے گھر رہنا پڑتا ہے جب تک کہ ان کے نئے گھر کی تعمیر مکمل نہ ہوجائے۔ اس مرحلے کے اختتام تک زیادہ تر لوگ قرضے میں ڈوب جاتے ہیں۔
اس ازسرِ نو ڈیولپمنٹ کی انتظام کاری کا بہترین طریقہ یہ ہوگا کہ نجی و سرکاری شعبے کی شراکت سے تحقیق، ڈیزائن اور تعمیرات پر مامور ایک کمپنی تشکیل دی جائے۔ تحقیق یہ سمجھنے کے لیے ہوگی کہ یہاں مقیم برادریوں کا ڈھانچہ کیسا ہے، ان کی ترجیحات کیا ہیں اور مقامی طور پر موجود سماجی انفراسٹرکچر کیسا ہے تاکہ منصوبہ بندی اور ڈیولپمنٹ یہاں مقیم لوگوں کی ڈیزائن اور تعمیرات میں شراکت سے ممکن ہوسکے۔
پڑھیے: چیف جسٹس نے 2 ماہ کیلئے پاکستان کوارٹرز خالی کروانے سے روک دیا
کمپنی کا ایک بورڈ ہونا چاہیے جس میں مقامی افراد کے نمائندے، سول سوسائٹی کے ارکان اور تدریس سے منسلک متعلقہ افراد بھی شامل ہوں۔ اس کے علاوہ ایک تنخواہ دار ایگزیکٹیو کمیٹی بھی ہو جس میں ایک علاقائی نمائندہ اور آزاد ماہرین موجود ہوں جو یہ یقینی بنائیں کہ بورڈ کے تحفظات کو انتظامیہ حل کرے۔
اس تصور پر شاید عمل کیا جائے یا شاید نہ کیا جائے، مگر امید ہے کہ ہمیں ایک مرتبہ پھر شہر میں ان 'غیر قانونی' آبادیوں سے زبردستی بے دخلی نہیں دیکھنی پڑے گی جو کم آمدنی والے لوگوں کو گھر فراہم کرنے میں ریاستی ناکامی کی وجہ سے ہیں اور یقیناً لوگوں کو بے گھر کرنا وزیرِاعظم کے 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے پروگرام میں شامل نہیں ہے۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 28 اکتوبر 2018 کو شائع ہوا۔