وسائل کی تقسیم اختیارات کی منتقلی سے بھی منسلک ہے۔ عدم مرکزیت اور اختیارات کی نیچے تک منتقلی کے تصور کو زیادہ تر لوگ تسلیم کرتے ہیں کیونکہ جو خدمات مقامی طور پر فراہم کی جاسکتی ہیں ان کے لیے فیصلے وفاقی یا صوبائی سطح پر فیصلے کیوں لیے جائیں؟ مرکزیت نہ صرف غیر جمہوری بھی ہے بلکہ یہ غیر مؤثر ہے اور اس سے کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ خاص طور پر یہ خدمات کی فراہمی کے لیے بہت اہم ہے۔
اسکول یا مقامی صحت مرکز کہاں ہونا چاہیے، اسے کون اور کیسے چلائے گا اور اسے کیسے مانیٹر کیا جائے گا، یہ مقامی مسائل ہیں اور ان کا حل بااختیار مقامی حکومتوں اور برادریوں کو کرنا چاہیے۔ کچھ چیزوں میں رابطہ کاری کی ضرورت پڑسکتی ہے: ہوسکتا ہے کہ مرکزیت سے ان کی کارکردگی بہتر ہو (نصاب، امتحانی نظام، کتابوں کی چھپائی، سامان کی خریداری) مگر زیادہ تر انتظامی اور گورننس سے متعلق فیصلہ سازی کا مقامی سطح پر ہونا قابلِ فہم ہے۔
پاکستان کے زیادہ تر لوگ عدم مرکزیت اور اختیارات کی منتقلی کے بنیادی اصول سے متفق ہوتے ہیں۔ تفصیلات، مثلاً نصاب وغیرہ کے بارے میں کچھ بحث ہوسکتی ہے مگر اسے رابطہ کاری کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے اور یہ مرکزیت کے حق میں دلائل نہ ہوسکتے ہیں اور نہ ہیں۔
چنانچہ اگر عدم مرکزیت معقول ہے اور کم از کم خدمات کی فراہمی کے لیے تو یہ معقول ہی ہے، تو پھر یہ 18ویں ترمیم کا متنازع مسئلہ کیوں ہے؟ وجہ ایک بار پھر مالیاتی ہے۔ خدمات کی فراہمی مہنگی ہے۔ اگر صوبوں کو مقامی سطح پر خدمات، خصوصاً صحت، تعلیم، پانی، نکاسی آب و صفائی اور سماجی بہبود آئین میں کیے گئے وعدوں کے مطابق فراہم کرنی ہیں یا پھر ان معاہدوں کے مطابق جن پر ہم نے دستخط کیے ہیں (پائیدار ترقی کے اہداف یا ایس ڈی جی) تو پھر انہیں وسائل چاہیے ہوں گے۔ محصولات اکھٹے کرنے کے ہمارے نظام کو دیکھتے ہوئے اس کام کے لیے وفاق سے صوبوں کی جانب اہم منتقلیوں کی ضرورت ہوگی۔
یہ سچ ہے کہ کم سے کم معیارِ تعلیم اور نصاب کے کچھ حصوں پر اتفاقِ رائے کے لیے باتیں ہوئی ہیں مگر یہ مسائل مرکزیت کا جواز نہیں فراہم کرسکتے۔ یہ رابطہ کاری اور مذاکرات کے لیے وجوہات فراہم کرسکتے ہیں مگر مرکزیت کے لیے نہیں۔ کیونکہ آخر مذاکرات کے ذریعے اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے برعکس کسی غیر متفقہ چیز کا نفاذ کیسے زیادہ بہتر ہوسکتا ہے؟
بالآخر یہی محسوس ہوتا ہے کہ سارا مسئلہ پیسے کا ہے اور مسئلہ این ایف سی یا 18ویں ترمیم نہیں ہے۔ مسئلہ یہ حقیقت ہے کہ ہمارا ٹیکس نظام خراب انداز میں ڈیزائن کیا گیا ہے اور خراب کارکردگی کا حامل ہے۔ تمام بڑے ٹیکس وفاق کے پاس ہیں، ٹیکس کا دائرہ کار بہت چھوٹا ہے اور عملدرآمد بہت ہی کم ہے۔ اس کے علاوہ ایڈ ہاک اور ایڈوانس کٹوتیوں پر بہت زیادہ انحصار کیا جاتا ہے اور صوبوں کے پاس اپنے سورس ٹیکس نہیں ہیں یا وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔