یہ واضح ہے کہ ضوابط کا نفاذ اور تجاوزات کے خلاف آپریشن صرف اشرافیہ کے لیے ایک طریقہ ہے کہ جب وہ اپنے آس پاس موجود غریبوں سے بہت زیادہ تنگ آجائیں تو انہیں محروم کرنے کا چکر دوبارہ شروع کردیں۔ بڑے اور زیادہ طاقتور کھلاڑی یا تو قانون کے ہاتھ سے بہت بڑے ہوجاتے ہیں یا پھر وہ اس نفاذ کو خرید کر اس پر اثرانداز ہوکر بچ جاتے ہیں۔ سماجی طور پر ہم اشرافیہ کے ایسے قبضوں کو قبول کرلیتے ہیں جبکہ اسی کام کے لیے غریبوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ معیشت کو مناسب انداز میں باضابطہ بنانے اور قوانین کے ہمہ گیر نفاذ سے ملک کو طویل مدتی فوائد حاصل ہوں گے۔ مگر ہم ان لوگوں کے بارے میں سوچنے میں کیوں ناکام ہوجاتے ہیں جو ان فوائد کے بارآور ہونے تک محروم ہی رہیں گے؟
بظاہر ہماری پالیسیاں دُور اندیشی سے عاری ہیں۔ ہم اس سے آگے نہیں سوچتے کہ زیادہ لین والی سڑکوں اور پلوں پر گاڑی چلانا کتنا آرامدہ ہوگا یا پھر کس طرح غیر قانونی سرمائے کو ٹیکس نیٹ میں آنا ہی پڑے گا۔
کچھ پالیسیاں اپنے آپ میں ہی غیر منصفانہ ہوتی ہیں چاہے انہیں لبرل نکتہ نظر سے دیکھیں یا تنقیدی نکتہ نظر سے۔ ایک منصفانہ پالیسی کو معاشرے میں پہلے سے مسائل کے شکار افراد کو مزید نقصان میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ محروم، دربدر اور جبر کے شکار انسان جو بے ضابطہ بستیوں میں روز کی کمائی پر زندگیاں گزار رہے ہیں، وہ نہ خراب ہونے والا ایسا سامان نہیں جسے ہم کولڈ اسٹوریج میں ڈال کر قوانین کے نفاذ کے فوائد کے حصول کا انتظار کرتے رہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 15 نومبر 2018 کو شائع ہوا۔
انگلش میں پڑھیں۔