یہ ایمپریس مارکیٹ ہے یا رام دین پانڈے کی قبر؟

یہ ایمپریس مارکیٹ ہے یا رام دین پانڈے کی قبر؟

اختر بلوچ

ایمپریس مارکیٹ کا ماضی و حال
ایمپریس مارکیٹ کا ماضی و حال

گزشتہ روز ہمارے ایک دوست نے فون کیا اور کہا کہ، ’آپ مختلف جامعات میں اردو پڑھاتے ہیں، میں ایمپریس مارکیٹ کے حوالے سے مختلف ٹی وی چینلز پر رپورٹیں دیکھ رہا تھا۔ بیشتر پر ہانپتے کانپتے رپورٹر جوشیلی آواز میں کہہ رہے تھے کہ ایمپریس مارکیٹ کے اطراف میں ناجائز تجاوزات کا خاتمہ کردیا گیا ہے تو کیا تجاوزات جائز بھی ہوتی ہیں؟‘

ہم نے جواباً انہیں کہا کہ، ’کِتابچہ اب ایک معروف نیوز چینل پر کُتا بچّہ بولا گیا ہمیں تو یہ بھی شک ہے کہ کسی دن چنانچہ کو چنا-نچہ نہ بولا جائے، یہ سن کر وہ ہنس دیے پھر کہنے لگے، ’کیا سپریم کورٹ رام دین پانڈے کے ساتھ انصاف کر پائے گی؟‘

رام دین پانڈے کون تھے کیا تھے اور انہیں سپریم کورٹ کیوں انصاف فراہم کرے؟ مزید یہ کہ اس کا ایمپریس مارکیٹ سے کیا تعلق بنتا ہے؟ اس پر آگے چل کر بات کرتے ہیں۔

ایمپریس مارکیٹ ایک تاریخی اہمیت کی حامل عمارت ہے اور اس کا 1857ء کی جنگِ آزادی سے بھی تعلق بنتا ہے۔ تقسیمِ ہند سے قبل، ایمپریس مارکیٹ اور اس سے متصل علاقوں میں 90 فیصد آبادی غیر مسلموں کی تھی، جن میں برطانوی راج کے اہلکار اور ان کے اہلِ خانہ اور ان کے علاوہ گوا، مدراس سے یہاں آکر بسنے والے انڈین مسیحی، پارسی اور بمبئی کے مراٹھی آباد تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو ایمپریس مارکیٹ کے اطراف میں پارسیوں کی عبادت گاہ ’دار مہر‘، کیتھولک عیسائیوں کے چرچ اور اسکول، پارسیوں کی جانب سے تعمیر کیے گئے پارکس اور ڈسپینسریاں بھی نظر آئیں گی۔

مؤرخ محمد عثمان دموہی کے مطابق تقسیم سے قبل ایمپریس مارکیٹ میں مقامی لوگوں کا داخلہ ممنوع ہوتا تھا۔ پیر علی محمد راشدی کے مطابق ایمپریس مارکیٹ سے متصل سڑکوں پر وکٹوریہ بگھیاں چلتی تھیں جن پر شام کو برطانوی راج کے اہلِ خانہ سیر سپاٹوں کے لیے سواری کرتے تھے۔ یہ پورا علاقہ نہایت صاف ستھرا ہوا کرتا تھا۔

ابتدائی طور پر 1839ء میں ایمپریس مارکیٹ کو کیمپ بازار کہا جاتا تھا۔ مارکیٹ کا نقشہ انجینیئر مسٹر جیمز اسٹریچن نے تیار کیا تھا۔ 10 نومبر 1884ء کو اس عمارت کا سنگِ بنیاد گورنر بمبئی سر جیمز فرگوسن نے رکھا۔ یہ عمارت جودھپوری سرخ پتھر سے تعمیر کی گئی ہے، اس کے ٹاور کی اونچائی 140 فٹ ہے، مارکیٹ میں 4 گیلریاں ہیں، اس کا درمیانی حصہ 130 فٹ طویل اور 100 فٹ چوڑا ہے۔

مارکیٹ میں 280 اسٹالز کی جگہ تعمیر کی گئی تھی، لیکن اب اس کی صورتحال بالکل مختلف ہے۔ ایمپریس مارکیٹ کے اطراف میں تجاوزات نے عمارت کے حسن کو گہنا دیا تھا۔ وہ ٹاور جس پر ایک بڑا گھڑیال نصب تھا جس کی آواز سے علاقے میں بسنے والے لوگ جو گھڑیوں سے محروم تھے وقت کا تعین کرتے تھے۔ لیکن اب یہ گھڑیال دن میں صرف دو مرتبہ درست وقت بتاتا ہے، یہ وہ وقت ہے جہاں برسوں قبل اس کی گھڑی کے کانٹے ٹھہر گئے تھے۔

اس عمارت کی تعمیر کا ٹھیکہ 3 ٹھیکیداروں کو دیا گیا تھا، ان میں مسٹر ڈلو کیجو، جے ایس ایڈ فلیڈ اور مسٹر ولی محمد جیون شامل تھے اور اس عمارت کی تعمیر پر ڈیڑھ لاکھ روپے سے زائد کی رقم خرچ ہوئی۔ کمشنر سندھ مسٹر پرچرڈ نے 21 مار چ 1889ء کو عمارت کا افتتاح کیا اور چونکہ اس سال ملکہ وکٹوریہ کی سلور جوبلی بھی منائی جارہی تھی تو اس مناسبت سے عمارت کا نام ایمپریس مارکیٹ رکھا گیا۔

ایمپریس مارکیٹ کی ایک پرانی تصویر
ایمپریس مارکیٹ کی ایک پرانی تصویر

ہم ابتداء میں ذکر کرچکے ہیں کہ عمارت کی تعمیر کا تعلق 1857ء کی جنگِ آزادی سے بھی بنتا ہے۔ اس کی حقیقت کچھ یوں ہے کہ 1857ء میں کراچی میں مقیم برطانوی فوج کی 21ویں رجمنٹ کے سپاہیوں نے رام دین پانڈے کی قیادت میں ایک منصوبہ تشکیل دیا، جس کے مطابق ایک رات کو 21ویں رجمنٹ کے سپاہیوں نے پورے کینٹونمنٹ پر قبضہ کرنا تھا اور انگریز فوجی افسران کو قتل کرکے آزادی کا باقاعدہ اعلان کرنا تھا، لیکن 21ویں رجمنٹ سے ہی تعلق رکھنے والے کچھ مخبروں نے اس کی اطلاع انگریز سرکار کو دے دی جس کے بعد انگریزوں نے راتوں رات رام دین پانڈے اور اس کے ساتھ منصوبے میں شامل 14 باغی سپاہیوں کو گرفتار کرلیا۔

13 اور 14 ستمبر 1857ء کی درمیانی شب ان باغیوں کو جنگِ آزادی کی حمایت میں حصہ لینے پر ایمپریس مارکیٹ کے مقام پر خالی میدان میں سرِعام پھانسی دی گئی جبکہ رام دین پانڈے سمیت دیگر 3 باغیوں کو توپوں کے مُنہ پر باندھ کر اڑا دیا گیا۔ بعد ازاں ان لاشوں کے ٹکڑے اکٹھے کرکے ایک گڑھے میں پھینک دیے گئے، جن باغیوں کو پھانسی دی گئی تھی اُن کی لاشوں کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے اور اسی گڑھے میں پھینک دیا گیا۔

اطلاعات کے مطابق ممکنہ طور پر تجاوزات کے مقام پر پارک بنایا جائے گا—تصویر اختر بلوچ
اطلاعات کے مطابق ممکنہ طور پر تجاوزات کے مقام پر پارک بنایا جائے گا—تصویر اختر بلوچ

تجاوزات کے خاتمے کے بعد کے منظر—تصویر اختر بلوچ
تجاوزات کے خاتمے کے بعد کے منظر—تصویر اختر بلوچ

معروف محقق گل حسن کلمتی کے مطابق ایمپریس مارکیٹ اسی جگہ پر تعمیر کی گئی تھی۔ ایمپریس مارکیٹ کی تعمیر کا مقصد لوگوں کو خرید و فروخت کی سہولتیں فراہم کرنا نہیں تھا بلکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی، ہوا یہ کہ اس واقعے کے بعد مقامی لوگ رات کی تاریکی میں یہاں آتے تھے اور اس مقام پر سرخ پھولوں کے گلدستے رکھ کر چلے جاتے تھے۔ یہ صورتحال دیکھ کر انگریز سرکار کو یہ خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں یہ آہستہ آہستہ شہداء کی یادگار نہ بن جائے، اور کسی نئی بغاوت کا پیش خیمہ ثابت نہ ہو، اس لیے یہاں ایمپریس مارکیٹ تعمیر کردی گئی اور انگریز اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی رہا۔

اب معدودے چند لوگوں کے شاید ہی کسی کو معلوم ہو کہ یہ رام دین پانڈے اور دیگر شہداء کی یادگار ہے۔ چند برس قبل سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے یہاں پر شام کو شمعیں روشن کرکے ان کی یاد منائی تھی اور یہ عہد کیا تھا کہ ہرسال یہ یاد منائی جائے گی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔

ایمپریس مارکیٹ کے اطراف میں تمام تجاوزات ختم کردی گئی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ تجاوزات کے مقام پر پارک بنایا جائے گا۔ سندھ حکومت اس سے قبل مراد علی شاہ کی رہنمائی میں جہانگیر پارک جیسے ویران اجاڑ مقام کو ایک خوبصورت پارک میں تبدیل کرچکی ہے۔ اب یہ پارک کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن بنائے یا سندھ حکومت، لیکن کیا اس پارک کا نام رام دین پانڈے پارک رکھا جاسکتا ہے؟ یا پھر اس کے لیے بھی کوئی سرپھرا شہری چیف جسٹس ثاقب نثار کی عدالت میں مفاد عامہ کے حوالے سے درخواست دائر کرکے یہ گزارش کرے گا کہ مجوزہ پارک کا نام رام دین پانڈے پارک رکھا جائے۔

آخر میں ایک اور بات یہ کہ تجاوزات کا خاتمہ تو ہوگیا لیکن اگر آپ لکی اسٹار کے کونے پر میر کرم علی تالپور روڈ سے کھڑے ہوکر ایمپریس مارکیٹ کو دیکھتے تھے تو اس کی عمارت بہت واضح انداز میں نظر آتی تھی لیکن نہ جانے کس کے مشورے پر ایمپریس مارکیٹ کے بالکل سامنے میر کرم علی تالپور روڈ پر عجیب بدوضع سے شیڈ بنا دیے گئے ہیں جس وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ یہ ایمپریس مارکیٹ کی پیشانی پر بدنما داغ ہے، یہ شیڈ کسی حکومتی ادارے کی جانب سے بنائے گئے ہیں، ہم نے بڑی کوشش کی کہ شیڈ کے اطراف میں کوئی ایسی تختی تلاش کر پائیں جس پر شیڈ تعمیر کرنے والے ادارے کا کوئی نام ہو لیکن ہم ناکام رہے تو کیا ان سرکاری تجاوزات کو بھی ہٹایا جائے گا؟

ایمپریس مارکیٹ کے بالکل سامنے میر کرم علی تالپور روڈ پر عجیب بدوضع سے شیڈ بنا دیے گئے ہیں—تصویر اختر بلوچ
ایمپریس مارکیٹ کے بالکل سامنے میر کرم علی تالپور روڈ پر عجیب بدوضع سے شیڈ بنا دیے گئے ہیں—تصویر اختر بلوچ

ایمپریس مارکیٹ پر تجاوزات کے خاتمے کا اثر اتنا ہوا کے آس پاس کی شاہراہوں پر بھی تجاوزات کے خاتمے کا آغاز ہوگیا، کچھ تو بلدیاتی عملے نے اپنا کام دکھا اور کہیں لوگوں نے ہی خود سے کام شروع کردیا اور ایسے ایسے انکشافات ہوئے کہ عقل حیران رہ گئی۔

ایک اور عمارت پر فریڈرک کیفے ٹیریا کا خوبصورت سائن بورڈ بھی نظر آیا جس کے بارے میں نامور روشن خیال ماہر تعلیم ڈاکٹر ریاض شیخ کا کہنا ہے کہ اس کیفے ٹیریا میں تقسیم سے قبل مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے حضرات یہاں بیٹھ کر سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل پر تبادلہ خیال کرتے تھے۔ سن تعمیر ایک خوبصورت لوہے کی گرل میں کندہ کیا گیا ہے۔

فریڈرک کیفے ٹیریا کا سائن بورڈ—تصویر اختر بلوچ
فریڈرک کیفے ٹیریا کا سائن بورڈ—تصویر اختر بلوچ

سن تعمیر ایک خوبصورت لوہے کی گرل میں—تصویر اختر بلوچ
سن تعمیر ایک خوبصورت لوہے کی گرل میں—تصویر اختر بلوچ

ریگل چوک پر ریگل ٹریڈ اسکوائر کے ساتھ جو دکان مسمار کی گئی اس کے پیچھے ایک نالہ برآمد ہوا اور اس پر ایک سرکاری ٹوائلیٹ بھی نظر آیا۔ ٹوائلٹ کے ساتھ ایک نجی بینک کی عمارت بھی موجود ہے جو نالہ پر ہی بنی ہوئی ہے۔ یہ کب بنی کیوں بنی اور کیسے بنی اس کا ہمیں علم نہیں۔

یہ سب دیکھ کر ہم سوچ میں پڑ گئے کہ 'ناجائز تجاوزات' میں نہ جانے ایسی کتنی ہی تاریخی عمارتیں دفن ہوں گی جنہیں نکالنے کے لیے مزید کتنے آپریشن کرنے پڑیں گے۔


اختر بلوچ سینیئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔