طاہر داوڑ کوئی معمولی پولیس افسر نہیں تھے
خیبر پختونخوا کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) طاہر داوڑ کے اغواء اور قتل نے اس وقت ملک میں جاری کھیل کے تمام تضادات کو آشکار کر دیا ہے۔
بس آپ ان پولیس افسر کے کیس کے حقائق کو دیکھیں اور آپ متفق ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ وہ 26 اکتوبر کو اسلام آباد کے رہائشی سیکٹر سے غائب ہوئے۔ 2 دن گزر جانے کے بعد ہی کسی نے پہلی مرتبہ سنا کہ وہ اپنی پوسٹنگ کے شہر پشاور سے دارالحکومت میں آنے کے بعد لاپتہ ہو گئے تھے۔
جب یہ خبر پہلی مرتبہ سامنے آئی تو صاف انداز میں یہ بتایا گیا تھا کہ ان کا خاندان پریشان تھا کیونکہ انہوں نے گمشدگی کے دن اپنے گھر والوں کو ٹیکسٹ میسج کیا تھا (اس لیے بھی کیونکہ وہ عام طور پر گھر پر میسج اردو میں کرتے تھے جبکہ اس دفعہ انگلش میں کیا تھا) کہ وہ پریشان نہ ہوں اور وہ جلد ہی واپس آ جائیں گے۔ اور پھر انہوں نے اپنا فون بند کر دیا۔
28 اکتوبر کو وزیرِ اعظم کے قریب ترین ساتھیوں میں سے ایک ان کے ترجمان افتخار درانی نے لاپتہ پولیس افسر کے بارے میں وائس آف امریکا کے صحافی کے سوال کو باقاعدہ ہنسی میں اڑا دیا اور کہا کہ طاہر داوڑ پشاور میں 'بخیر و عافیت' ہیں اور ان کے اغوا کی اطلاعات کو مسترد کر دیا۔
اس کے بعد اکا دکا خبروں کے علاوہ مکمل طور پر خاموشی چھائی رہی جب تک کہ رکنِِ قومی اسمبلی محسن داوڑ، جو کہ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) سے بھی وابستہ ہیں، نے اس معاملے کو قومی اسمبلی کے فلور پر اٹھایا۔ تب بھی اس حوالے سے حکومتی سطح پر خاموشی رہی اور اس بات کا اعادہ نہیں کیا گیا کہ آیا اب تک کوئی اس معاملے کی جانچ پڑتال کر بھی رہا ہے یا نہیں۔
مسٹر درانی کی باخبر نظر آنے کی کم علمی پر مبنی اس کوشش کے علاوہ واحد دوسری بات وزیرِ مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کی جانب سے آئی جنہوں نے اس مسئلے کو 'نہایت حساس' قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس پر تبصرہ نہیں کیا جا سکتا۔ حیرت کی بات نہیں کہ اس رویے کو بے حسی کے طور پر دیکھا گیا۔
اس کے تقریباً 2 ہفتے کے بعد ہم نے سنا کہ پولیس افسر کی تشدد زدہ اور زخم خوردہ لاش افغانستان کے ننگرہار صوبے سے ملی ہے جو کہ ہماری مہمند اور خیبر ایجنسیوں کی سرحد کے ساتھ اور دونوں ممالک کی طورخم سرحد کے قریب واقع ہے۔
ان کی لاش کو آخری رسومات کے لیے پاکستان آنے میں ڈیڑھ دن مزید لگا کیونکہ افغانستان کی معاندانہ حکومت نے انتہائی بدذوقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مسئلے پر سیاست کھیلنے کا فیصلہ کیا اور پاکستانی حکام اور مقتول ایس پی کے 2 بھائیوں کو ان کا جسدِ خاکی دینے میں تاخیر سے کام لیا۔
فوج کے ترجمان جو کہ عام طور پر سیکیورٹی معاملات پر نہایت سرگرم رہتے ہیں، نے اس معاملے پر جمعرات تک بات نہیں کی، شاید اس لیے کیونکہ ان کی ٹوئیٹس سے لگ رہا تھا کہ وہ کہیں اور مصروف ہیں۔ اور جب انہوں نے بات کی تو انہوں نے ایک پولیس افسر کے پاکستان سے اغوا اور افغان سرزمین پر قتل کو دشمن قوتوں کی سازش ہونے کا اشارہ دیا۔
سازشیں شاید بہت زیادہ نہ ہوں مگر کچھ ضرور گردش کر رہی تھیں جن میں سے ایک نظریہ سرحد کی افغان جانب موجود قبائلی افراد سے منسوب یہ دعویٰ تھا کہ لاش ایک سرحدی چیک پوسٹ سے صرف چند سو گز کے فاصلے پر پائی گئی۔
مگر اس رپورٹ کی آزادانہ تصدیق کا کوئی ذریعہ نہیں تھا کیونکہ اس کا لازماً مطلب یہ ہوتا کہ تشدد اور قتل پاکستانی جانب کسی جگہ ہوا اور پھر لاش کو سرحد پار ایک سخت گشت والے علاقے میں لے جایا گیا۔
کیا یہ ممکن ہے؟ ہاں۔ کیا یہ معقول ہے؟ نہیں۔
چنانچہ اس چیز پر توجہ دیتے ہیں جو ہم جانتے ہی ہیں۔ طاہر داوڑ کوئی عام آدمی یا عام پولیس اہلکار نہیں تھے۔ انہوں نے زبردست ذاتی اور پروفیشنل جنگیں لڑی تھیں۔ ان کے ایک بھائی کو قتل کیا گیا جبکہ انہوں نے اپنے ایک انتہائی قریبی اور پیارے رشتے دار کو طالبان نظریات کی تقریباً نذر ہوتے دیکھا۔
عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abbas.nasir@hotmail.com ہے۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abbasnasir59@
