گزشتہ حکومت نے پی ای ای ایف کے لیے ایک انڈوومنٹ فنڈ کا اہتمام کیا تھا اور مستحق طلبہ کو لاکھوں روپے کی اسکالرشپس فراہم کیں۔ پی ای ای ایف کی جو جائزہ رپورٹیں میری نظر سے گزری ہیں، ان کے مطابق اس کی کارکردگی کافی حد تک بہتر رہی ہے۔ جبکہ جن بچوں نے اسکالرشپ حاصل کی ہیں ان پر اس کے بظاہر اچھے خاصے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ تو کیا اس پالیسی میں توسیع کی جانی چاہیے؟ اگر پی ٹی آئی تمام بچوں کو مساوی مواقع فراہم کرنے میں سنجیدہ ہے تو ہمیں لازمی طور پر میرٹ اور ضرورتمند بنیادوں پر اسکالرشپس فراہم کرنی ہوں گی۔ پی ای ای ایف ہمیں یہ فراہم کرسکتی ہے وہ بھی ثبوت کے ساتھ جس کی ہمیں ضرورت ہے۔
کچھ ایسی پالیسیاں بھی ہیں جنہیں بتدریج ختم کرنا ہوگا۔ آیا حکومت لیپ ٹاپس تقسیم کرنا چاہتی ہے یا نہیں، یہ فیصلہ تعلیم سے متعلق نہیں ہے۔ ایسے کوئی شواہد نہیں ملتے کہ جو ثابت کریں کہ لیپ ٹاپس کی تقسیم سے تعلیمی لحاظ سے زبردست اور مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ البتہ حکومت اگر سیاسی وجوہات یا مقبولیت حاصل کرنے کی غرض سے ایسا کرنا چاہتی ہے تو یہ ایک الگ بات ہے۔
کجھ ایسے شعبے بھی ہیں جن پر گزشتہ حکومت زیادہ کام نہیں کرسکی ہے۔ ہمارے پاس اب بھی فی سروس (per service) اور دورانِ سروس (in service) ٹیچر ٹریننگ یا ٹیچر معاوضے اور کیریئر کی راہوں کے حوالے سے بہتر ماڈلز موجود نہیں ہیں۔ ہمارے پاس پبلک اسکولوں کی انتظامیہ کے حوالے سے بھی اچھے ماڈلز کا فقدان ہے۔ تعلیمی شعبے میں ہی اس کے علاوہ کئی ایسے شعبے ہیں جہاں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف کو ان شعبوں کے لیے نئی پالیسیاں متعارف کروانے کی ضرورت پڑے گی۔
اب بھی پی ٹی آئی کی پالیسیوں ہر بڑی حد تک غیر یقینی کی صورتحال نظر آتی ہے۔ اگرچہ ابتدائی دنوں کے دوران یہ بات قابلِ فہم بھی ہے، لیکن طویل عرصے کے لیے یہ سوچ جاری نہیں رکھی جاسکتی۔ پی ٹی آئی کو اپنے پالیسی وژن کو منطرِ عام پر لانا چاہیے اور واضح کرنا چاہیے کہ وہ کون سے کام کرنا چاہتی ہے۔ امید کرتے ہیں کہ گزشتہ پالیسیوں کو جاری رکھنے، اس میں ترمیم کرنے یا اسے آہستہ آہستہ ختم کرنے اور نئے منصوبوں کو متعارف کروانے کے فیصلے سیاسی بنیادوں پر نہیں بلکہ شواہد کے بنیادوں پر کیے جائیں گے۔
یہ مضمون 16 نومبر 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
انگلش میں پڑھیں۔