ڈاکٹر ’فارغ‘ ستار کے لیے کچھ مشورے
آخر ڈاکٹر فاروق ستار تھوڑا تھوڑا کرکے ایم کیو ایم سے پورے باہر کردیے گئے۔ عجیب بات ہے کہ جس جماعت کو کبھی ’منزل نہیں رہنما چاہیے‘ تھا، آج اُسے رہنما بھی نہیں چاہیے، بس راستہ چاہیے، وہ بھی جو اسلام آباد جاتا ہو۔
ہمیں فاروق بھائی سے ہمدردی ہے، پہلے بھی تھی، لیکن ہم خود کو ان کا بلکہ ایم کیو ایم یا اس کے کسی بھی رہنما کا ہمدرد قرار دینے سے ڈرتے تھے، وجہ یہ ہے کہ کراچی میں جو بھی جان سے جاتا ایم کیو ایم کے اعلامیے میں اس کا ہمدرد قرار پاتا۔ چنانچہ ہمارے دل میں خوف بیٹھ گیا کہ جو بھی ان کا ہمدرد ہوگا اُسے ہر درد سے نجات مل جائے گی۔ خیر ذکر تھا فاروق بھائی کا۔
فاروق بھائی کو کہنے والے بجا طور پر معصوم کہتے ہیں۔ انہیں جب کسی نے چاہا اندر کردیا جب کسی نے چاہا باہر کردیا۔ اس بار تو ستم یہ ہے کہ اسمبلی سے بھی باہر ہیں اور اپنی جماعت سے بھی، شریف آدمی ہیں ورنہ اب تک آپے سے بھی باہر ہوچکے ہوتے۔ انہیں سوچنا چاہیے تھا کہ:
کروں گا کیا جو ’سیاست‘ میں ہوگیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
قصور فاروق بھائی کا بھی نہیں، انہیں سوچنے کی مہلت ہی کب ملی؟ ان کی سیاسی زندگی تو وضاحتیں، صراحتیں، تشریحات، تفسیرات سوچنے میں گزر گئی۔ ایک زمانے تک وہ ’بھائی‘ کی تقریروں کی تعبیروں میں سر کھپاتے رہے، کبھی ’ٹھوک دو‘ کے نرم ملائم اور پیار بھرے معنی کھوجنے میں لگ جاتے تو کبھی کسی کو ’تھے ہوجائیں گے‘ کی دھمکی دُلار پیار قرار دینے کی کوشش میں نڈھال رہتے۔ کچھ وقت ملا بھی تو طویل ٹیلی فون کالز پر ملنے والی ہدایتیں سُننے میں صرف ہوگیا، پہلے یہ ہدایتیں دُور سے آتی تھیں پھر قریب سے آنے لگیں۔
اب حال یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب ’فرصت میں رہا کرتے ہیں فرصت سے زیادہ‘۔ اسی بنا پر بعض بدتمیز لوگ انہیں فارغ ستار کہنے لگے ہیں، جو ہم سے گوارا نہیں ہوتا، اس لیے ہم نے سوچا کہ فاروق بھائی کو مصروف کرنے کے لیے ان کی خدمت میں کچھ مشورے پیش کردیں۔
نئی جماعت بنالیں:
فاروق بھائی خود اپنی ذات میں انجمن ہیں اس لیے وہ ’میں قومی موومنٹ‘ کے نام سے نئی جماعت بنالیں، جس میں ان کے سوا کوئی نہ ہو۔ نہ کوئی اور ہوگا، نہ جھگڑے ہوں گے، نہ اختلافات ہوں گے، نہ پارٹی تقسیم ہوگی۔ کبھی یہ سُننے کو نہ ملے گا کہ ’فاروق بھائی نے ستار بھائی کو عہدے سے ہٹا دیا‘ یا ’ستار بھائی نے فاروق بھائی کی رکنیت ختم کردی‘۔ وہ خود پارٹی کے سربراہ ہوں اور ان کی معاونت کے لیے رابطہ کمیٹی کی جگہ ’لاپتہ کمیٹی‘ ہو، جب پوری کمیٹی لاپتہ ہوگی تو سارے فیصلے فاروق بھائی ہی کریں گے ناں۔
کلینک کھول لیں
فاروق ستار باقاعدہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں۔ اتنے عرصے وہ ’دفاع‘ کرتے رہے، اب شفا کا کام سنبھال لیں۔ ہمارے خیال میں وہ ذہنی امراض میں مبتلا مریضوں کا علاج کریں تو مناسب رہے گا، اگرچہ وہ ماہرِ نفسیات نہیں مگر تجربہ بھی کوئی چیز ہے۔
ترجمانی کا پیشہ
اپنے وسیع اور طویل تجربے کی بنیاد پر فاروق بھائی ترجمانی کا پیشہ بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ اگر وہ مولانا خادم حسین رضوی کو اپنی خدمات پیش کریں اور یہ خدمات قبول کرلی جائیں تو ہمیں یقین ہے کہ وہ ’پین دی سری‘ سمیت ہر گالی کی اتنی مہذبانہ وضاحت کریں گے کہ مولانا خادم پر اعتراض کرنے والے نادم ہوجائیں گے۔
مثال کے طور پر ’پین دی سری‘ کی وضاحت کرتے ہوئے وہ اپنی جیب سے بال پوائنٹ نکالیں گے اور اس کے ڈھکنے پر انگلی رکھ کر کہیں گے ’دیکھیے یہ ہوتی ہے پین دی سری، خادم بھائی جب بھی کرتے ہیں اسی کی بات کرتے ہیں۔
یہ خدمت وہ تحریکِ انصاف کی حکومت کے لیے بھی انجام دے سکتے ہیں۔ عمران خان، وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومت کی ترجمانی کے لیے تو فواد چوہدری اور فیاض الحسن چوہان جیسے ’تارے زمین پر‘ ہیں، مگر ان دونوں حضرات کی ترجمانی کے لیے فاروق بھائی سے بہتر کوئی نہیں۔ جب فاروق بھائی ترجمانی کریں گے تو چوہدری صاحب اور چوہان صاحب کو پتا چلے گا کہ جو انہوں نے کہا تھا اس کا مطلب تو وہ تھا ہی نہیں جو وہ خود بھی سمجھ رہے تھے۔
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔
