حکومت کے 90 دن: کیا کھویا کیا پایا
دوسری گنتی، یعنی 100 دن بھی دراصل مرضی کے مطابق منتخب کی اور ادھار لی گئی ہے۔ صدارتی نظام میں 100 دنوں کی گنتی کا معاملہ سمجھ میں آتا ہے کیونکہ وہاں صدر حلف لیتے ہی زیادہ تر انتظامی اختیارات حاصل کرلیتا ہے۔
البتہ پارلیمانی نظام میں معاملہ اتنا سیدھا نہیں ہوتا۔
5 سالہ دورِ اقتدار کی الٹی گنتی پارلیمنٹ کے حلف لینے کے ساتھ ہی شروع ہوجاتی ہے۔ لیکن انتظامیہ (ایگزیکیٹو) اسی وقت تشکیل پاتی ہے جب وزیرِاعظم منتخب ہوتا ہے اور پھر انتظامیہ کا کام دراصل شروع تب ہی ہوتا ہے جب کابینہ کی اکثریت اپنی جگہیں سنبھال چکی ہو۔
اس لیے یہاں ’100 دن‘ کی گنتی ایک تدبیر ہے جو دوسری جگہوں سے لی گئی ہے اور یہ ہمارے ملکی نظام سے بہت کم مطابقت رکھتی ہے۔ تو ایسے میں ہم 90 دنوں کا جائزہ بھی لے سکتے ہیں۔ کم از کم یہ نمبر ہماری ملکی تاریخ سے تو کسی نہ کسی صورت میں جڑا ہوا ہے۔
تو 90 دن پورے ہونے پر ہم نے کیا کچھ پایا ہے؟
سب سے تازہ ترین: 100 دن پورے ہونے پر ایک پلان کا وعدہ، ایک شدید فاشسٹ شخص کے بارے میں ایک عجیب سا حوالہ اور مسٹر یوٹرن کی عرفیت کا جواز پیش کرنا۔ اس سے پہلے: صرف سعودی عرب کا منی بیل آؤٹ، اور ان دونوں چیزوں کے درمیان: مشتعل ہجوم کے سامنے اپنی ساکھ کو زبردست نقصان پہنچانے والا سرینڈر۔
یہ دن تو اچھے نظر نہیں آتے۔
لیکن اگر یہ دن اچھے نہیں گزرے تو کتنے خراب رہے؟ ان تقسیمی، اپنے دشمن پر غالب آجاؤ، ہمارے ساتھ یا ہمارے مخالف کے ساتھ والے سیاسی وقتوں میں بربادی اور کامیابی دونوں ہی اچھی باتیں نہیں ہیں۔ بربادی ہوگی تو وہ ایک تلخ مزاج سیاسی فریق کے مخالف کی اور کامیابی ہوگی تو وہ بھی ایک تلخ مزاج سیاسی فریق کے حمایتی کی۔
اب اس میں جزوی طور پر یا شاید بڑی حد تک پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی غلطی ہے۔ کئی برس قبل جس سیاسی شور شرابے کا والیم عمران اور پی ٹی آئی نے فُل کردیا تھا، اب عمران اور پی ٹی آئی اسی شور شرابے کو ایک مناسب اور قابلِ برداشت والیم تک محدود رکھنے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔ گوریلا اسٹائل سیاست کرنے والوں نے خود اپنے اوپر ہی حملہ کرلیا ہے۔
لیکن اگر آپ یہاں پر ایک لمحے کا وقفہ لیتے ہیں اور تھوڑا سا مختلف سوال پوچھتے ہیں تو پی ٹی آئی تقریباً ویسی ہی کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہے جس کی 90 دن قبل اس سے ایک حد تک توقع تھی۔ ہاں تھوڑا سا مختلف سوال یہ ہے کہ، غیر جانبدار حلقوں نے پی ٹی آئی سے 90 دنوں کی کارکردگی میں کس طرح کی معقول توقعات وابستہ کی ہوتیں؟
یہ تو اب واضح ہے کہ جب پی ٹی آئی نے 90 دن قبل اقتدار سنبھالا تب وہ پوری طرح سے تیار ہی نہیں تھی، معاملات سے تقریباً لاعلم۔ لیکن یہ حیرانی کی بات بالکل بھی نہیں۔ بلکہ تنقیدی نگاہ والوں کے نزدیک تو ایسا ہونا لازم ہی تھا۔
عمران کے سیاسی کیریئر کی سمت کا جائزہ لیتے ہیں۔ وہ کسی بھی طرح کی تفصیلات میں تقریباً عدم دلچسپی دکھانے میں کافی مستقل مزاج رہے ہیں۔ اگر نواز کے پاس ان کی سڑکیں اور موٹر ویز ہیں اور آصف کے پاس ان کی شوگر ملیں اور بے اتتہا زمینیں ہیں، تو عمران کے پاس کیا ہے؟
اچھا یا بُرا، ناجائز یا جائز، پسندیدہ منصوبے یا بڑی سطح کی پالیسی، آپ کو عمران کی دلچسپیوں میں ایسا کچھ نہیں ملے گا جس سے معلوم ہو کہ انہیں تفصیلات یا پھر پالیسی اور گورننس (یا خراب گورننس) کی بنیاد کی فہم ہے۔
اس معاملے میں سب سے قریبی چیز اگر ہے تو وہ ہے درخت لگانے کا کام، مگر اس کام میں کوئی غیر معمولی تفصیل نظر آتی ہے، یا کوئی تفصیل نظر آتی ہے؟ انہوں نے پودوں کی اقسام یا جنگلات اگانے کی سائنس یا درختوں، سبزہ زار، مٹی اور علاقے سے متعلقہ کوئی بات نہیں کی۔
بات درحقیقت درختوں کی نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ عمران خان بظاہر جس چیز کے بارے میں پُرجوش ہیں، انہوں نے اس کی تفصیلات میں بھی دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔
اس بات کا اندازہ بڑی حد تک خود پی ٹی آئی کو دیکھ کر ہوجاتا ہے۔ یہ جماعت ایک زبردست انتخابی قوت بن چکی ہے اور یہ ایک غیر معمولی کامیابی ہے، لیکن پارٹی کی حقیقی سپورٹ عمران خان کی ذاتی کشش کی وجہ سے ہے نہ کہ بنیادی سطح کی سیاسی مشین سے۔
عمران خان کو جب بھی جماعت کو سیاسی مشین بنانے کا موقع ملا ہے تو انہوں نے اس مشین کے لیے درکار پیچیدہ اور پائیدار پرزوں کو سمجھنے اور انہیں ترتیب دینے کے جامع مرحلے کے متعلق بے صبری اور جھنجھلاہٹ کا ہی مظاہرہ کیا ہے۔
لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔
ان کی ٹوئٹر آئی ڈی cyalm@ ہے
