نکاح کے وقت طلاق کی بات کرنے میں کوئی حرج ہے یا نہیں؟؟


شادی میں سب لوگ کیا پہنیں گے، دلہن کے لباس کا رنگ کون سا ہے، اس کے زیورات کی قیمت کتنی ہے اور کس میک اپ آرٹسٹ یا فوٹوگرافر سے خدمات حاصل کرنی ہیں، اس حوالے سے بڑی پھرتی اور دلچسپی کے ساتھ تیاری نظر آتی ہے، یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شادیوں کا سب سے زیادہ نظر انداز حصہ ہے تو نکاح نامہ یا معاہدہ نکاح ہے۔
اس کے بات باری آتی ہے تقریب کی جگہ، مہمانوں کی لسٹ اور تقریب کی فہرستِ طعام کی۔ زیادہ تر تقریبات کے اخراجات کا خیال رکھنے کے لیے شادی لانز سے ہی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ وہ رشتہ دار جنہیں دہائیوں سے نہ سنا ہوتا ہے اور نہ دیکھا ہوتا ہے انہیں بھی مدعو کیا جاتا ہے اور اسی طرح کے دعوت ناموں کے منتظر پڑوسی بھی تقریب میں شرکت کرتے ہیں۔
شادی کی ان تمام مہنگی تقریبات کے درمیان ہم نکاح کی شرائط کو تو جیسے بالکل ہی بھول جاتے ہیں، وہی شرائط جو زیادہ تر مسلم ممالک میں نکاح نامے میں لکھتی ہوتی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں ارینج (اور حتیٰ کہ پسند کی) شادیوں میں جوڑے کے حوالے سے ہر گفتگو میں خوش امیدی کے ساتھ اور رشتہ ازدواج کے اٹوٹ بندھن کو سوچ کر ہی کی جاتی ہے۔ آیا دونوں کے خاندان ساتھ چل سکیں گے یا نہیں یا دولہا اور دلہن کا رشتہ چل سکے گا یا نہیں؟ اس حوالے سے غور و فکر میں خاندان کے تمام بڑے افراد شامل ہوتے ہیں اور کئی دنوں تک ان باتوں پر غور کیا جاتا ہے۔ دراصل اس کا مقصد یہ یقینی بنانا ہوتا ہے کہ نکاح کبھی فسخ نہ ہو۔ رشتہ طے کرتے وقت تمام الفاظ اور جذبات کا محور یہی ایک توقع ہوتی ہے، اور ایک طرح کے خاموش اشارے ہوتے ہیں جس کی لڑکے اور لڑکی والے دونوں ہی تعبیداری کے ساتھ عمل پیرا ہوتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں جس طرح پاکستان میں اربنائزیشن ہوئی ہے اور زیادہ تر شادیاں پڑھے لکھے افراد کے درمیان ہوتی ہیں، تو نکاح نامہ کو خواتین کے حقوق کو محفوظ بنانے کے ایک ذریعے کے طور پر سمجھ کر اسے حقارت سے دیکھنے کا رویہ اور بھی زیادہ کھل کر سامنے آچکا ہے۔
وہ خواتین جن میں سے کئی یا تو اپنے شوہر جتنی یا اکثر اوقات ان سے زیادہ پڑھی لکھی ہوتی ہیں، وہ یہ دیکھ کر سہم گئی ہیں کہ ان کے نکاح نامے میں انہیں اس وقت تک طلاق یا خلع لینے کا حق ہی فراہم نہیں کیا گیا جب تک کہ شوہر انہیں اس حق کی ’اجازت‘ نہیں دے دیتا۔ ایک تو وہ خواتین پہلے ہی ٹوٹے پھوٹے رشتے کی مشکل صورتحال سے گزر رہی ہوتی ہیں اور جذباتی بوجھ ان کے سر پر سوار رہتا ہے، اوپر سے انہیں یہ پتہ لگتا ہے کہ ان کے پاس طلاق لینے کے اختیار میں مساوی شرائط بھی حاصل نہیں ہیں۔
مگر اب امید کی تھوڑی کرن نظر آ رہی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) ایک ایڈوائزری باڈی ہے اور اس کا کام پاکستان کے قانون کو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق بنانا ہے۔ حالیہ ہفتوں میں ایک خبر سامنے آئی کہ سی آئی آئی پاکستان میں عام طور پر استعمال ہونے والے نکاح نامے کے فارم کا جائزہ لے رہی ہے۔ سی آئی آئی کے موجودہ چیئرمین قبلہ ایاز کے مطابق نئے فارم کے مطابق نکاح پڑھوانے والے قاضی کے لیے دلہن کو فسخ نکاح کے حق کے مطالبے کے بارے میں مطلع کرنا ضروری ہوگا۔ نکاح نامے کی تیاری کے وقت ایک بار حق کو تسلیم کردیے جانے کے بعد مستقبل میں کسی قسم کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس طرح ایک خاتون پیچیدہ اور وقت طلب قانونی مرحلے سے گزرنے کے بجائے آسانی کے ساتھ طلاق لینے کا اختیار رکھ سکے گی۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@