اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا پاکستانی خواتین، دلہنیں اور خصوصاً مستقبل قریب میں بننے والی دلہنیں، اس موقعے کا فائدہ اٹھائیں گی یا نہیں۔ رپورٹس کے مطابق کونسل کے اس اقدام کا مقصد یہ ہے کہ قاضی کو بیوی کے طلاق کا حق تفویض کرنے سے روکا جاسکے۔ تاہم نکاح نامے میں خواتین کو حاصل اس حق کو دستاویزی شکل دینے کا خود مطالبہ کرنا ہوتا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے، دستخط کے وقت دلہن اور اس کے گرد مجمعہ طلاق کی ممکنات کے بارے میں سوچے بغیر نہیں رہ نہیں سکتا۔
نکاح کے حوالے سے متعارف کیے جانے والے تقاضوں کی مدد سے قاضی کی جانب سے خواتین کے نکاح کے متعلق حقوق اور فسخ کی اہل خانہ (عام طور پر مردوں) کے ایما پر تفویض کرنے کے عمل ختم کرنے کے حوالے سے ایک مثبت اقدام ہے اور اس سے لاکھوں خواتین کی زندگیاں بدلنے کا امکان پیدا ہوا ہے۔ مگر ایک بار نکاح کے حوالے سے تمام تقاضوں کو متعارف کیے جانے کے بعد یہ انحصار خواتین پر ہوگا کہ وہ نکاح کے وقت اس حق کو حاصل کرنے کے لیے خود میں حوصلہ پیدا کریں۔ تمام شادی شدہ اور غیر شادی شدہ خواتین کو اس تبدیلی میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ لیکن سی آئی آئی ممکنہ طور پر فارم میں قانونی تبدیلیاں کو تو یقینی بناسکتا ہے لیکن اس سے نکاح کے وقت طلاق کے بارے میں بات کو لے کر جو ثقافتی فرسودہ خیالات پائے جاتے ہیں انہیں اتنی آسانی سے ختم کرنا شاید ممکن نہیں ہوسکے۔
پاکستانی خواتین اس ’اسٹیٹس کو‘ کو ختم کرسکتی ہیں اور انہیں ختم کرنا ہوگا، اس کے لیے جہاں انہیں لگتا ہے کہ انصاف اور اپنی ضرورت کے تحت کوئی تبدیلی ہونی چاہیے تو اس کی اگاہی پھیلائیں اور اصلاحات لائیں۔ اسلام میں خواتین کو حاصل حقوق پر کافی بات ہوچکی ہے، طلاق کا حق بھی انہی حقوق کا ایک حصہ ہے اور نکاح نامہ ایک ایسا دستاویز ہے جس میں تعلقات میں مساوی حیثیت کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ ایک بار سی آئی آئی کی جانب سے اپنی بات کہہ دینے اور نئے ضابطے جاری کردینے کے بعد باقی کا کام خود خواتین کو ہی کرنا ہے۔
یہ مضمون 21 نومبر 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔