پھر معلوم نہیں کیا ہوا۔ شیراز چلتے چلتے گرنے لگ گیا۔ دس پندرہ قدموں کے بعد وہ اچانک لڑھک جاتا۔ ابو اسے سہارا دیتے، سنبھالتے پھر اُس کا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگتے لیکن وہ سنبھل نہ پاتا۔ کبھی وہ سائیکل سے گر جاتا، کبھی بیڈ سے اور کبھی باتھ روم میں گر جاتا۔ سڑک پر گرنے سے اکثر اس کے گھٹنے زخمی ہوجاتے۔ اس کی ٹانگیں یکدم کمزور ہوگئی تھی۔ ہم نے اسے بے شمار ڈاکٹروں کو دکھایا، اس کے کئی چیک اپ ہوئے، امی کا خیال تھا کہ اسے نظر لگ گئی ہے۔ امی ہر نماز کے بعد قرآنی آیات پڑھ کر اس پر پھونکتی۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ نہ میں زمین میں ہوں، نہ آسمان میں، بلکہ کہیں خلا میں معلق ہوگئی ہوں۔
’شیراز کے مسلز کمزور ہو رہے ہیں، چلو بیٹا کھڑے ہوکر دکھاؤ اور میری طرف قدم بڑھاؤ۔‘ ڈاکٹر فرحان، مشہور آرتھو پیڈک اسپیشلسٹ تھے، انہوں نے شیراز کا مکمل چیک اپ کیا۔
’آپ کے بچے کی معذوری muscular dytrophy ہے۔ اس بیماری میں جسم میں موجود خلیوں میں پروٹین کی قدرتی طور پر کمی ہونا شروع ہوجاتی ہے جس سے جسم کے پٹھے کمزور ہوجاتے ہیں۔ یہ disability عام طور پر کزن میرج کا نتیجہ ہوتی ہے۔‘ انہوں نے تفصیلاً بتایا۔
’اس کا علاج۔۔۔‘ میری آواز میں نمی گھل رہی تھی۔
’میڈیکل ہسٹری میں اس disability کا کوئی علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوا، لیکن تحقیق جاری ہے۔ ہوسکتا ہے آئندہ سالوں میں امید کی کرن نظر آجائے، لیکن فی الحال آپ اس کی باقاعدہ فزیوتھراپی کرواتی رہیں۔ میں کچھ میڈیسن بھی لکھ کردیتا ہوں۔ آپ بہت حوصلہ مند خاتون ہیں۔ میں ایسے بہت سے disabled persons کو جانتا ہوں جنہوں نے صحت مند انسانوں کے برعکس زندگی میں زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ انہوں نے زندگی کو ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا۔ کوشش کیجیے کہ اپنے بچے کی زندگی کو اس کی disability کے ساتھ manage کریں۔‘ ڈاکٹر فرحان نے مجھے تسلی دی۔
گھر آکر میں امی کے گلے لگ کر بہت روئی۔ ہر آزمائش، ہر تکلیف صرف میرے ہی لیے کیوں؟
’اللہ صرف انہی انسانوں کو آزماتا ہے جو آزمائشوں پر پورے اترنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، جو اس کے بے حد نزدیک ہوں۔ دعا کیا کرو کہ اللہ تمہیں صبر دے اور استقامت بخشے۔‘ امی نے میرے دونوں ہاتھ تھام کر مجھے سمجھایا۔
شیراز پھر سے اسکول جانے لگا۔ ابو اسے گود میں اٹھا کر اسکول لے جاتے اور کلاس روم میں بٹھا دیتے۔ میں اسے گود میں اٹھا کر باتھ روم لے جاتی، اس کو نہلاتی، کپڑے بدلتی، پیشاب وغیرہ کرواتی۔ لیکن پھر میرے لیے اس کو اٹھانا مشکل ہونے لگا۔ میری اپنی کمر میں درد شروع ہوگیا کیونکہ اس کا وزن بڑھ رہا تھا۔ وہ بہت چڑ چڑا بھی ہوگیا تھا۔ ہر بات پر ضد شروع کردیتا۔ وہ جب اپنی سائیکل اور بیٹ بال کو حسرت سے دیکھتا تو میرا دل ڈوبنے لگتا۔ ابو اپنے دوست کے مشورے پر اس کے لیے وہیل چئیر لے آئے۔ اب وہ وہیل چئیر پر اسکول جانے لگا، لیکن ایک دن مجھے اس کی پرنسپل نے بلوایا۔
’مسز فراز مجھے معلوم ہے کہ آپ کو میری بات سے بے حد تکلیف پہنچے گی۔ شیراز بہت ذہین بچہ ہے لیکن اپنی بیماری کی وجہ سے وہ بہت ضدی ہوگیا ہے۔ وہیل چئیر پر بیٹھنے کی وجہ سے اس کے کلاس فیلوز اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور وہ ان سے لڑتا جھگڑتا ہے۔ سبق تو وہ صحیح یاد کرلیتا ہے مگر لکھتے ہوئے اسے بہت دقت ہوتی ہے۔ آہستہ آہستہ لکھتا ہے۔ ٹیچرز کو تمام اسٹوڈنٹس کا کلاس ورک چیک کرنا ہوتا ہے، لیکن شیراز کی وجہ سے باقی اسٹوڈنٹس کا وقت ضائع ہوتا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب صرف یہ ہے آپ اسے معذور بچوں کے اسکول میں داخل کروا دیں۔‘ پرنسپل نے لفظوں کے ہیر پھیر میں اپنے فیصلے سے آگاہ کردیا۔
میں نہیں چاہتی تھی کہ شیراز کی تعلیم میں کوئی رکاوٹ آئے۔ اس لیے میں اسے معذور بچوں کے اسکول میں داخل کروانے لے گئی۔ یہاں آکر مجھے آگاہی ہوئی کہ پاکستان میں ہر 10واں فرد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہے۔ کتنے پھول سے بچے تھے جو وہیل چئیر پر بیٹھے تھے۔ کسی کو پولیو تھا، کسی کو CP اور کتنے خاندان ایسے تھے جن کے گھر میں 2 یا 3 بچوں کو muscular dystrophy تھی۔
جانے کتنے بچے تھے جو اندھے پن، گونگے پن، بہرے پن کا شکار تھے اور بے شمار افراد ایسے تھے جو شدید معذوری کا شکار تھے اور گھروں میں بند تھے۔ سالہا سال سے انہوں نے سورج کی روشنی بھی نہیں دیکھی تھی۔ ہماری بے حس حکومت کو بالکل احساس نہیں تھا کہ معذوری سے متعلق آگاہی اور شعور کو بلند کرنے کے لیے فوری طور پر پروگرام اور پالیسیاں تشکیل دینی چاہئیں۔