بدقسمتی سے آخری وقت تک بھٹو صاحب جیسا ذہین و فطین سیاست دان بھی اپنی غلطیوں، کمزوریوں کے اعتراف کے بجائے ساری ذمہ داری سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر ڈالتا رہا۔ اسی تجاہل عارفانہ کا اظہار ان کی صاحبزادی محترمہ بینظیر بھٹو بھی کرتی رہیں۔
بصد احترام، آصف زرداری اور نواز شریف سیاست کی اس پیڑھی میں نہیں آتے کہ دونوں نے جتنے برس اقتدار میں نہیں گزارے اس سے زیادہ وہ جیلوں اور عدالتوں کے پھیرے لگا رہے ہیں، اور ایسا سب کچھ کسی اصولی سیاست کی وجہ سے نہیں بلکہ کرپشن جیسے بدنام داغ کے سبب ہورہا ہے۔ لہٰذا صرف 100 دن بعد ہی اگر ہمارے محترم وزیرِاعظم کو مڈٹرم انتخابات یاد آنے لگے ہیں تو اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
مگر ایک بار پھر یہ بات دہرانے پر معزرت کروں گا کہ اس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں وہ خود ہی ہیں۔ ایک سے زائد بار خان صاحب فرما چکے ہیں کہ وفاقی اور تینوں صوبوں میں جو بھی گورنر، وزارت، وزیر اور مشیر لگائے وہ ان کی اپنی ٹیم ہے۔ ذرا 40 وزیروں مشیروں، فوج ظفر موج پر نظر ڈالی جائے تو دعوے سے کہا جاسکتا ہے کہ ان میں سے 50 فیصد بھی کپتان کے کھلاڑی نہیں۔ ان میں اکثریت نے سویلین ملٹری حکمرانوں ہی نہیں شریفوں اور زرداریوں کے دسترخوان پر بھی ہاتھ صاف کیے ہیں۔
مسکین معصوم بلکہ مٹھو صورت لیے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے وزیرِاعلیٰ کے بارے میں انتہائی تکبرانہ انداز میں یہ فرمانا کہ وہ ان کے نامزد وزیرِ اعلیٰ ہیں اور پورے 5 سال رہیں گے کسی پختہ سیاستدان کے بیان سے زیادہ مغلیہ دور کے بادشاہوں کی یاد دلاتا ہے۔