بلوچستان: کابینہ کہاں ہے؟
گیارہ مئی کے انتخابات کو منعقد ہوئے دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن بلوچستان میں کابینہ کی تشکیل ابھی تک ممکن نہیں ہو سکی جس سے اس بات کا اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ ڈاکٹر مالک کو اپنی حکومت کی تشکیل کے آغازمیں ہی مشکلات کا سامنا ہے۔
حکومت سازی میں تب بھی مشکل پیش آئی تھی جب وزیر اعلیٰ کے انتخاب کا مرحلہ در پیش تھا۔ مسلم لیگ (ن) جو آزاد اراکین کی حمایت کے بعد بلوچستان اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی بن گئی تھی اپنا وزیر اعلیٰ منتخب کرنے کی خواہشمند تھی۔ پارٹی کے صوبائی صدر نواب ثناء اللہ زہری کے علاوہ نوابزادہ چنگیز مری بھی اس عہدے کے مظبوط امیدوار تھے۔ جبکہ پشتونخوا میپ اور نیشنل پارٹی کی خواہش تھی کہ کسی ایسے غیر متنازعہ شخص کو وزیر اعلیٰ بنایا جائے جس کے انتخاب سے صوبے میں ایک خوشگوار تبدیلی کا احساس ہو۔
اتحادی جماعتیں جب اس سلسلے میں کسی نتیجے پر پہنچنے میں ناکام رہیں تو انہیں مجبوراَ وزیر اعظم نواز شریف سے رجوع کرنا پڑا۔ طویل مشاورت کے بعد قرعہ فال ڈاکٹر مالک کے نام نکلا جبکہ پشتونخوا میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے بھائی محمد خان اچکزئی کو بلوچستان کا نیا گورنر نامزد کردیا گیا۔
نواب ثناء اللہ زہری کی ناراضگی سے بچنے کے لئے انہیں وزیر اعظم کا مشیر بنا دیا گیا جبکہ انہوں نے اپنی صوبائی اسمبلی کی رکنیت بھی برقرار رکھی۔ سات جون کو ڈاکٹر مالک بلا مقابلہ صوبے کے نئے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
وزارت اعلیٰ کا معاملہ کسی طرح طے پایا تو کابینہ کی تشکیل کا مرحلہ سامنے تھا۔ جس کے لئے حکمران اتحاد میں شامل تینوں بڑی جماعتیں ایک بار پھر سر جوڑ کے بیٹھ گئیں۔ لیکن بڑی کوششوں کے بعد بھی وزارتوں کی تقسیم کا فارمولا طے نہیں کیا جاسکا جس کی وجہ سے ڈاکٹر مالک جو مسلم لیگ (ن) اور پشتونخوامیپ کی حمایت سے وزیر اعلیٰ بننے میں کامیاب ہوئے تھے اس بحران کوحل کرنے سے قاصر نظر آئے۔
19 جون کو اگرچہ ایک تقریب میں مسلم لیگ (ن)کے نواب ثناء اللہ زہری نے سینئر وزیر جبکہ نیشنل پارٹی کے نواب محمد خان شاہوانی اور پشتونخوا میپ کے عبدالرحیم زیارت وال نے وزراء کی حیثیت سے حلف اُٹھا تو لیا لیکن ان کے بھی محکموں کا اعلان نہیں کیا جاسکا۔
کہا جاتا ہے کہ اتحادی جماعتیں زیادہ سے زیادہ اور "اہم" وزارتوں کے حصول میں دلچسپی رکھتی ہیں لیکن چونکہ ڈاکٹر مالک اس بات کا اعلان کر چکے ہیں کہ وہ اپنی کابینہ مختصر رکھیں گے اس لئے انہیں اپنے اتحادیوں کو خوش اور مطمئن رکھنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق وزراء کو جن اہم محکموں کے حصول میں زیادہ دلچسپی ہے ان میں خزانہ، مواصلات و تعمیرات، خوراک اور آب پاشی کے محکمے زیادہ اہم ہیں۔ ان محکموں کی اہمیت جاننے کے لئے جب میں نے سرکاری ملازمت پر فائز اپنے ایک دوست سے معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ ان محکموں میں پیسے کی ہر وقت اتنی "ریل پیل" رہتی ہے کہ ان سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی بندہ مختصر عرصے میں ہی اپنی زندگی سنوار سکتا ہے۔
جس طرح نام سے ظاہر ہے مواصلات اور تعمیرات کے محکمے کا کام سرکاری تعمیراتی کاموں کی منظوری دینا اور ان کی نگرانی کرنا ہے۔ صوبے بھر میں سڑکوں اور شاہراہوں کے علاوہ پلوں اور سرکاری عمارتوں کی تعمیر کا زیادہ تر کام اسی محکمے کے توسط سے ہوتا ہے۔
صوبے میں سالانہ اربوں روپے کے ترقیاتی کام ہوتے ہیں جن میں سے زیادہ تر کا سراغ صرف کاغذوں میں ہی ملتا ہے جبکہ ان کے لئے مختص ہونے والی رقم متعلقہ محکمے کے ملازمین اور ٹھیکیداروں کی جیبوں میں چلی جاتی ہے۔
اس بندر بانٹ میں "حصہ بقدر جُثہ" چپراسی سے لیکر سیکریٹری تک کو ان کی "محنت کا صلہ" ملتا ہے جبکہ محکمے کے وزیر کو ان ترقیاتی کاموں کی سرپرستی اور اسمبلی میں معاملات کو سنبھالنے کے عوض باقاعدگی کے ساتھ بھرپور"محنتانہ" پہنچایا جاتا ہے۔
آب پاشی کا محکمہ صوبے بھر میں نہروں اور ڈیموں کی تعمیر کا ذمہ دار اور نگران ہوتا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اگر ان نہروں اور ڈیموں کی تعمیر کے لئے سالانہ ملنے والی اربوں روپے کی رقم کا درست استعمال کیا جائے تو نہ صرف پانی کی نعمت سے صوبے میں زراعت کو ترقی دی جاسکتی ہے بلکہ ہر سال سیلابی پانی میں ڈوب کرہلاک ہونے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو بے گھر اور در بدر ہونے سے بھی بچایا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر یہی کام ہی کرنا ہو اور عوام کے پیسوں کے آگے بند باندھ کر اپنے لئے ان کا ذخیرہ کرنے کی خواہش نہ ہو تو اس محکمے کی وزارت کے حصول پر جھگڑنے کی نوبت ہی کیوں آئے؟
رہی محکمہ خزانہ کی بات تو اکثر لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ سرکاری کاموں سے متعلق پیسوں کی ادائیگی کا احسن کام اسی محکمے کے فرشتے انجام دیتے ہیں۔ کسی نے بڑھاپے میں اپنی پنشن کا مسئلہ حل کرانا ہو یا اپنی رُکی ہوئی تنخواہ وصول کرنی ہو، کسی فنڈ کا اجرا مقصود ہو یا کسی سرکاری منصوبے میں لگی اپنی رقم نکالنی ہو، جب تک محکمہ خزانہ کے اہلکار کی مٹھی گرم نہیں کی جاۓ مجال ہے کہ آپ کی فائل اپنی جگہ سے ایک انچ بھی ہل پائے۔
جب بات تمام سرکاری محکموں کے اخراجات کی ہو تو آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان اربوں روپوں میں سے اگر "بندر بانٹ فارمولے" کے مطابق صرف دس فیصد بھی وزیرکے حصے میں آئے تو وہ مختصر سے عرصے میں کیا سے کیا بن سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ جب ایک مولانا صاحب کو خزانے کا قلمدان تفویض کیا گیا تو موقع پاتے ہی انہوں نے وزیر اعلیٰ سے پوچھا کہ خزانے کی چابی کہاں ہے؟
جہاں تک خوراک کے محکمے کی بات ہے تو اس کے بارے میں صرف اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ جس محکمے کے ایک کلرک پر کروڑوں روپوں کے خورد برد کا الزام ہو وہ محکمہ کتنا بابرکت ہوگا۔
یہی حال بلدیات کے محکمے کا ہے۔ ایک وقت تھا جب مذکورہ محکمے کے بعض ادنیٰ ملازمین بھی اپنی ان تھک محنت سے ماہانہ کروڑوں روپے کمالیتے تھے بشرطیکہ وزیر کی آشیرواد حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی پوسٹنگ بھی کسی اہم مقام پر ہوتی۔
اگرچہ پرویز مشرف کے نئے بلدیاتی نظام کی بدولت یہ محکمہ ریٹیگ کے لحاظ سے کافی پیچھے چلا گیا ہے لیکن یہ مرا ہوا ہاتھی اب بھی سوا لاکھ کا ہے اس لئے اس کے حصول کی خاطر بھی لابنگ زور شور سے جاری ہے۔
وزارت داخلہ بھی اس لحاظ سے ایک طاقتور محکمہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں سے اچھی "سلام دعا" رہتی ہے اور وزیر کے بہت سارے غیر قانونی کاموں پر پردہ پڑا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ مخالفین کی گاہے بگاہے چھترول بھی کروائی جاسکتی ہے جبکہ ایروں غیروں پر رعب بھی جمایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اپنے گُرگوں کو پولیس کی پہنچ سے محفوظ بھی رکھا جاسکتا ہے اور کسی اہلکار کی من پسند جگہ پر پوسٹنگ یا ٹرانسفر کرواکے ڈھیر ساری "دعائیں" بھی سمیٹی جاسکتی ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے کہ صوبے کے حالات جب سے خراب ہو ئے ہیں اس وزارت میں وہ پہلے والا مزہ نہیں رہا۔
اب ڈاکٹر مالک، اسلم رئیسانی تو ہیں نہیں جو اس وزارت کو سابق وزیر داخلہ میر ظفر زہری جیسے کسی شخص کے حوالے کریں گے جو آئی جی پولیس کی پریس کانفرنس کے دوران ڈیوٹی پر مامور کسی پولیس کانسٹیبل کی طرح اونگھتے نظر آتے تھے۔
ایک ایسے وقت میں جب بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال زیادہ قابل اطمینان نہیں اور ایک طرف بلوچ سرمچاروں کی سرگرمیاں تو دوسری طرف مذہبی دہشت گردوں کی ماردھاڑ سے بھرپور کاروائیاں تواتر سے جاری ہیں جبکہ اغوا برائے تاوان کا سلسلہ بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا، ایسے میں اس محکمے کی ذمہ داری اُٹھانا بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کے مترادف ہوگا۔ اس لئے بہتر یہی ہو گا کہ وزیر اعلیٰ یہ محکمہ اپنے پاس ہی رکھیں۔
داخلہ کی طرح ایک اور اہم محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی کا ہے جس کے پاس بیورو کریسی کی اکھاڑ پچھاڑ کے اختیارات ہوتے ہیں۔ لہٰذا سرکاری ملازمین کو ان کی پسندیدہ پوسٹوں پر تعینات کرکے بہت سارا "ثواب" کمایا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کی حساسیت کے پیش نظر ڈاکٹر مالک کو اس محکمے کے بارے میں بھی کافی سوچ بچار کرنا ہوگا تاکہ حکومت پر ان کی گرفت بنی رہے اور بیورو کریسی ان کی طابع رہے۔
یہ ہرگز مت سمجھئے گا کہ صرف یہی وہ محکمے ہیں جنہیں 'کماؤ پوت' کہا جا سکتا ہے بلکہ وطن عزیز کا ایک ایک محکمہ اپنے اہلکاروں اور وزیروں کو اپنے ظرف کے مطابق کما کر دے سکتا ہے اس لئے مذکورہ بالا محکموں سے محرومی کے باوجود ہر رکن اسمبلی کی خواہش ہوتی ہے کہ اُسے کوئی نہ کوئی وزارت ضرور ملنی چاہئے۔
صحت کے شعبے میں سالانہ کروڑوں رُپیوں کی دوائیں اور مشینیں خریدی جاتی ہیں لیکن ہسپتالوں کا یہ حال ہے کہ مریضوں کو نہ تو دوائیں نصیب ہوتی ہیں نہ ہی صحیح علاج معالجہ بلکہ لاکھوں روپے نذرانے کی شکل میں وزیر صاحب کی جیب میں چلے جاتے ہیں۔ مشینیں بھی عموماَ خراب رہتی ہیں کیوں کہ سَستی اور ناکارہ مشینوں کو بھاری رقومات کے عوض صرف اس لئے خریدا جاتا ہے تاکہ ان پر مناسب کمیشن وصول کیا جا سکے جس کا ایک بڑا حصہ وزیر کی جیب میں چلا جاتا ہے۔
اسکولوں کی کتابوں، اسٹیشنری اور فرنیچر کی خریداری میں وزیر تعلیم کا مناسب کمیشن رکھا جاتا ہے۔
ہر سال فائلوں میں کروڑوں پودے اُگائے جاتے ہیں جن کا ایک بڑا حصہ وزیر جنگلات کی جیب میں پھلتا پھولتا ہے۔
غرضیکہ جس کو جہاں بھی موقع ملے وہ اس سے بھرپور فائدہ اُٹھانے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتا۔ آج تک میں نے وزارت کے کسی امیدوار کو یہ مطالبہ کرتے نہیں سنا کہ اسے تعلیم کا محکمہ اس لئے دیا جائے کیوں کہ وہ صوبے میں تعلیم کا معیار بلند کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔
یا اسے اس لئے کھیلوں کا وزیر بنایا جائے تاکہ وہ ان کھیلوں کے زریعے نوجوانوں میں صحت مند سرگرمیوں کو فروغ دے سکے۔
کسی نے یہ کہہ کر صحت کے شعبے کی فرمائش نہیں کی کہ وہ بلوچستان میں علاج معالجے کی ایسی سہولیات فراہم کرنا چاہتا ہے جن کے بعد مریضوں کو علاج کے لئے دوسرے شہروں کی طرف رخ نہ کرنا پڑے اور نہ ہی غریب مریض ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے پر مجبور ہوں بلکہ قوم کی خدمت سے سرشار ہر رکن اسمبلی کی یہی تمنا ہوتی ہے کہ اسے کوئی "اہم" محکمہ دیا جائے تاکہ وہ اس کی اہمیت کا صحیح فائدہ اُٹھا سکے۔
وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک یہ انقلابی بیان دے چکے ہیں کہ نہ وہ خود کرپشن کریں گے نہ کسی کو کرنے دیں گے تو پھر سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اگر عوام کی خدمت ہی اصل مقصد ہے اور خورد برد اور اقرباء پروری منشاء نہیں تو بعض محکمے اہم اور بعض غیر اہم کیوں؟ اور ان اہم وزارتوں کی تقسیم پر بحران کس لئے؟
کیا لوگوں کے وہ خدشات درست ثابت ہو رہے ہیں جن کے مطابق اگر ڈاکٹر مالک اور ان کے اتحادی مل کر کابینہ بھی تشکیل نہیں دے سکتے تو وہ صوبے کے پہاڑ جیسے مسائل کیسے حل کریں گے؟
سنا ہے کہ پہلے کی طرح یہ کیس بھی نواز شریف کی عدالت میں پیش ہونے جارہا ہے جہاں بلوچستان میں کابینہ کی تشکیل اور اہم وزارتوں کی تقسیم کا فارمولا طے کیا جائے گا۔ ممکن ہے کہ اس سے قبل کہ یہ تحریر آپ کی نظروں سے گزرے یہ بحران حل ہو چکا ہو اور ڈاکٹر مالک کی مشکلات میں کمی آچکی ہو۔
بہرحال بلوچستان کی عوام اس بات پر خوشگوار حیرت میں مبتلا ہے کہ اس سے قبل بلو چستان کے سیاست دان صوبائی معاملات میں وفاق کی مداخلت سے نالاں تھے لیکن اب وہ خود اپنے اندرونی مسائل کے حل کی خاطر بھاگ بھاگ کر وفاق کی چوکھٹ پر حاضری دینے پہنچ جاتے ہیں۔