وزیرِاعظم کراچی میں شب بسری کیوں نہیں کرتے؟
وزیرِاعظم عمران خان اتوار کو بھی کراچی میں محض 10 گھنٹے سے کم وقت گزار کر واپس دارالحکومت پہنچ گئے۔ اپنی حکومت کے 110 دنوں میں کراچی میں یہ ان کا دوسرا دورہ ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ’تبدیلی‘ کے دعویدار ہمارے خان صاحب نے ماضی کے وزرائے اعظم کی روایت برقرار رکھتے ہوئے اس دورے میں بھی کراچی میں شب بسری سے گریز کیا۔
یقین کیجیے کہ صرف ہمارے موجودہ وزیرِاعظم عمران خان ہی نہیں، بلکہ میری یادداشت کے مطابق ماضی کے تمام وزرائے اعظم کا دورہِ کراچی کا ایک لگا بندھا شیڈول ہوتا ہے، جو خارجہ اور داخلہ کے بابوؤں کی معروف بدنامِ زمانہ Red book کے مطابق انہیں تھمادیا جاتا ہے۔ سابق وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی صاحبزادی بینظیر بھٹو کی بات اور تھی کہ سندھ اور خاص طور پر کراچی میں ان کے آبائی گھر تھے۔ لہٰذا عموماً ہفتہ وار چھٹیوں کے علاوہ بھی ان کے پروگرام کا شیڈول کچھ اس طرح ہوتا تھا کہ سرکاری مصروفیات کے علاوہ ایک یا 2 شامیں ذاتی اور خاندانی دوستوں کے ساتھ ضرور گزارتے۔
وزرائے اعظم کراچی میں شب بھر قیام کیوں نہیں فرماتے؟ اس پر بات کرنے سے پہلے ذرا ان کے قیام کی مصروفیات پر نظر ڈالتے ہیں، وزیرِاعظم اپنے ذاتی اسٹاف کے ساتھ عموماً دوپہر 12 بجے گورنر ہاؤس پہنچتے ہیں، اب چونکہ پچھلی ایک دہائی سے سندھ میں پیپلزپارٹی کی ہی حکومت ہے اس لیے یہ ان کی مجبوری اور ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اپنے نامزد کردہ گورنر کے ہی گھر میں پڑاؤ ڈالے رہیں۔