بدقسمتی کے ساتھ ہمارے پارلیمانی سیکریٹریٹ لمس جیسی یونیورسٹیوں سے اچھے گریڈز کے ساتھ گریجویشن کرنے والوں کو اپنی طرف مائل نہیں کرپاتے۔ قومی اسمبلی کے موجودہ اسپیکر جب خیبرپختونخوا اسمبلی کے اسپیکر تھے تب انہوں نے وہاں کے اراکین کی صلاحیت سازی کے لیے نمایاں اقدامات کیے۔ امید ہے کہ وہ ایسی ہی توجہ قومی اسمبلی کے اسٹاف پر دیں گے۔
قومی اسمبلی کا ایک سب سے اہم کام ہر سال وفاقی بجٹ منظور کرنا ہے۔ افسوس کے ساتھ بجٹ کے حوالے سے پارلیمانی عمل بہت ہی سطحی ہے کیونکہ اس عمل کے تحت اراکین کو ہزاروں صفحوں پر مشتمل بجٹ دستاویزات پڑھنے اور اس کا گہرائی سے جائزہ لینے کا موقع ہی فراہم نہیں ہوتا۔ ہندوستان میں بجٹ پر کارروائیاں 75 دنوں تک جاری رہتی ہیں اور وزارتوں کے بجٹ کا جائزہ ان کی متعلقہ پارلیمانی کمیٹیاں لیتی ہے مگر اس کے برعکس پاکستان میں بجٹ پر قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کے مختلف مراحل کا دورانیہ عام طور پر محض 12 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ مالیاتی بل کمیٹیوں کو بھی نہیں بھیجا جاتا۔ اس کے علاوہ موجودہ قانون کے تحت حکومت قومی اسمبلی کی جانب سے پیشگی منظوری کے بغیر ہی منظور کردہ بجٹ سے زیادہ خرچہ کرسکتی ہے، جو کہ پارلیمانی منظوری کی روح کو ٹھیس پہنچانے کے برابر ہے۔ اسی لیے اگر کوئی ایک اصلاح اسمبلی کو لازمی طور پر لانی چاہیے تو اصلاح بجٹ کے حوالے سے پارلیمانی عمل سے متعلق ہونی چاہیے۔
پارلیمانی مباحث کا معیار زبردست حد تک بہتر ہوسکتا ہے اگر اس کی توجہ کا مرکز عوامی پالیسی بحثیں ہوں۔ کم سے کم سال میں ایک بار خارجہ تعلقات، سیکیورٹی، پانی، توانائی، معیشت اور دیگر عوامی مسائل پر نظم و ضبط کے ساتھ بحث ہونی چاہیے۔
نئی اسمبلی کے ابھی ابتدائی دن ہیں اور قومی اسمبلی کی قیادت کے پاس یہی اچھا وقت ہے کہ وہ ایک جامع 5 سالہ پلان کے لیے کوششیں شروع کردے تاکہ مذکورہ اور دیگر اصلاحات لائی جاسکیں۔
یہ مضمون 4 جنوری 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔