جب اخبارات کا ’ضمیمہ‘ بھی آتا تھا
یہ سہ پہر کا وقت ہے۔ ایسی ٹھہری ہوئی سہہ پہر کہ جس میں کھانا کھانے کے بعد گویا گھڑیال بھی سستانے کو رک سا جاتا۔
گلیوں میں آمد و رفت کم، نکڑ کے دکان دار بھی سستانے کو اپنی دکانیں ڈھانپ کر چلے گئے ہیں، ایسے میں ایک سائیکل یا اسکوٹر پر اخبار فروش کی ’ضمیمہ! ضمیمہ!‘ کی پکار اس شانت سہہ پہر کا سارا سکون درہم برہم کرکے رکھ دیتی ہے۔ ایک ہاہاکار سی مچ جاتی ہے۔ جس کان تک یہ آواز جاتی ہے وہ خبر لینے کو دوڑ پڑتا ہے کہ خدا خیر کرے کیا ہوا۔
اکثر اخبار فروش باآواز بلند ’سرخی‘ کا مفہوم عوامی انداز میں بھی سناتا جاتا، جیسے برطرفی یا استعفے کی جگہ وہ فلاں کی ’چھٹی‘ کہتا، دھماکے کی جگہ وہ ’اڑادیا‘ بولتا اور سزاؤں کے لیے ’اندر‘ اور ’لٹکا دیا‘ وغیرہ جیسے لفظ برتتا۔
یہ سرخی کبھی تو پوری سمجھ میں آجاتی اور کبھی اس کا مفہوم ادھورا رہ جاتا اور پھر ادھوری خبر سے تو تجسس کئی گنا بڑھ جاتا، جیسے کسی مشہور شخصیت کا نام سن لیا اور آگے کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا ہوا، تو سوچ سکتے ہیں کہ ادھورا سامع بنے اس قاری پر کیا گزرتی ہوگی!
پھر جس جگہ یہ اخبار فروش رک جاتا، اس کی اسکوٹر چاروں جانب سے گِھر جاتی اور دیکھیے ذرا ایک خلقت مٹھی میں ایک، ایک روپے کے 2 نوٹ یا ریزگاری تھامے ’ضمیمہ‘ حاصل کرنے کو بے قرار ہے۔ دھکم پیل ہو رہی ہے اور اس جمگھٹے سے جو بھی یہ ’اخباری ضمیمہ‘ حاصل کرکے نکل رہا ہے، اس کے ساتھ بھی چلتے پھرتے بہت سے ’قارئین‘ کا حلقہ ساتھ سِرکا چلا جا رہا ہے، جو بِنا ضمیمہ خریدے خبر کی زیادہ سے زیادہ تفصیلات جاننے کا متمنی ہے۔
ضمیمہ اتنا ’تازہ‘ ہے کہ اخباری روشنائی کی تیز بُو نتھنوں میں گُھس رہی ہے، طباعت بھی اتنی تَر ہے کہ ہاتھ پر چھپائی کی چپک بھی محسوس ہو رہی ہے۔ اخبار فروش کا ہاتھ دیکھیے تو اخبار گننے اور خریداروں کو نکال، نکال کردینے میں اس کا ہاتھ ’کالا بھٹ‘ ہوچکا ہے، اور وہ؟ وہ تو خبر کے اچھے یا بُرے ہونے سے بالکل بے پروا ہے، اس کا چہرہ تو دیکھیے، اس پر عجیب سی مسرت اور اطمینان سا ہے، کیوں نہ ہو اس ’بڑی خبر‘ کے صدقے گویا یومیہ اجرت کے دوران اسے ایک ’بونس‘ جو مل گیا ہے۔ اب وہ خیالوں میں کوئی ’خواب‘ پورا ہوتا دیکھ رہا ہے کہ خوشی اس کے چہرے سے پھوٹی پڑتی ہے۔
یہ اخباری ضمیمے ہی گزرے زمانے کی ’بریکنگ نیوز‘ تھے، جو واقعتاً اہم ترین اور بہت بڑی خبر ہوتے، ہاتھوں ہاتھ بکتے اور بہت سوں کو تو خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا۔ کوئی حادثہ، سیاسی واقعہ یا کوئی عدالتی فیصلہ اس ضمیمے کا اس وقت محرک بنتا، جب شام کے اخبار چھپ چکے ہوتے اور صبح کے اخبار آنے میں ابھی کافی وقت ہوتا۔
کبھی سہہ پہر اور کبھی شام ڈھلے سامنے آنے والے ’ضمیمے‘ معمول سے بھی ہلکے اخباری کاغذ پر ہوتے۔ سیاہ و سفید طباعت، صفحے کے ایک ہی طرف چھپے ہوئے یک ورقی اخبار، جس پر ’لوح‘ کے ساتھ اسی حجم کا بڑا سا ’2‘ لکھا ہوا ہوتا تھا... یہی ’2‘ اخبار کے ضمیمہ ہونے کا پتا دیتا اور اس کے ساتھ ہی بہت بڑی شہ سرخی ہوتی، جس کے نیچے اس خبر کی تفصیل۔ بعض اوقات اسی خبر کی مزید جزئیات چھوٹی چھوٹی 2، 3 اور ایک کالمی سرخیوں کے ساتھ لکھی ہوتیں۔ بعض اوقات صرف وجہ ضمیمہ خبر کی شہہ سرخی ہوتی، باقی جگہ دیگر تازہ خبروں سے پُر کی جاتی۔
ہماری یادداشت سے بھی کچھ ضمیوں کی یاد محو نہیں ہوئی، جن میں ’صدر فاروق لغاری کا استعفیٰ‘، ’جنرل جہانگیر کرامت کی برطرفی‘ اور ’جسٹس سجاد علی شاہ کا استعفیٰ‘ بھی شامل ہے۔ اس کے بعد زیادہ اچھی طرح ’جنرل پرویز مشرف کی برطرفی‘ کا ضمیمہ ہے، مغرب سے پہلے آنے والے اس ضمیمے میں نئے آرمی چیف بنائے جانے والے جنرل ضیا الدین بٹ کی سیلوٹ والی تصویر بھی لگی ہوئی تھی، مگر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی، سارا معاملہ ہی الٹا ہوگیا، برطرف کرنے والے کا اپنا ہی دھڑن تختہ کردیا گیا، لیکن اس دوسری خبر کا کوئی ضمیمہ نہیں آیا، افواہیں ہی افواہیں تھیں، پھر رات گئے یہ معلوم ہوا کہ ’جنرل پرویز مشرف قوم سے خطاب کرنے والے ہیں‘۔
بلاگر ابلاغ عامہ کے طالب علم ہیں۔ برصغیر، اردو، کراچی اور مطبوعہ ذرایع اِبلاغ دل چسپی کے خاص میدان ہیں۔ ایک روزنامے کے شعبۂ میگزین سے بطور سینئر سب ایڈیٹر وابستہ ہیں، جہاں ہفتہ وار فیچر انٹرویوز اور ’صد لفظی کتھا‘ لکھتے ہیں۔
