سیاسی لڑائی کے اس ماحول میں غربت سے لڑنا تو دور کی بات ہے آپ معیشت کو زمین سے اٹھانے کی امید بھی نہیں کرسکتے۔ دوست ممالک کی مالی معاونت پر انحصار کرتے ہوئے ملک سے آگے بڑھنے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے ملنے والے پیکجز کو سفارتی کامیابیاں بتانا کافی شرمناک امر ہے۔ اصلاحات کے لیے کسی واضح ایجنڈے کی غیر موجودگی میں اس قسم کے وقتی ریلیف واجبات کی صورت اختیار کرسکتے ہیں جو معیشت کو مزید پستی کی جانب دھکیل دیں گے۔
اپنی تصادم کی پالیسی کو بدلنے کا ابھی حکومت کی جانب سے کوئی اشارہ بھی نظر نہیں آتا۔ اس سے بھی زیادہ فکر کی بات یہ ہے کہ حکومت کے پاس خود کو لاحق چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کوئی واضح حکمت علمی موجود نہیں ہے۔ بلاشبہ کرپشن ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، لیکن لگتا ہے کہ حکومت صرف اور صرف اسی ایک مسئلے پر توجہ مرکوز کر بیٹھی ہے۔
عمران خان نے یہ دعویٰ کچھ زیادہ ہی بڑھا چڑھا کرکیا ہے کہ تمام اقتصادی اور سیاسی بدحالی کی اہم وجہ کرپشن ہے۔ اس بے معنی مہم نے اقتصادی اور سیاسی غیر یقینی کو بڑھا دیا ہے، جس کی وجہ سے کوئی ایک اصلاح لانا بھی دشوار ہوگیا ہے۔ عمران خان اکثر چین کی کرپشن کے خلاف حالیہ مہم کی مثال دیتے رہتے ہیں۔ وہ یہ سمجھنے میں ناکام رہے ہیں کہ چین اپنی معیشت مستحکم کرنے کے بعد ہی کرپشن نامی بلا کا مؤثر انداز میں مقابلہ کرنے کے قابل بن سکا ہے۔
یہ سیکھنے کے بجائے کہ چین کس طرح مختصراً عرصے میں ایک اقتصادی سپرپاور بن کر ابھرا، عمران خان سطحی طور پر اس کی تاریخ کے چند پہلوؤں کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ پاکستان کی اقتصادی اور سیاسی پستی کی ایک بڑی وجہ ترقی اور سماجی تبدیلی کے لیے طویل مدتی ویژن کی عدم موجودگی ہے۔
چینی ماڈل یہاں پر تو اختیار نہیں جاسکتا، لیکن ہم کم از کم اس کی کامیابی سے کچھ سبق ضرور حاصل کرسکتے ہیں۔ وہاں غربت کا خاتمہ، جس سے عمران خان کافی متاثر ہیں، اقتصادی ترقی اور سماجی اصلاحات کے بغیر نہیں آیا۔ بے گھروں کے لیے پناہ گاہوں کا قیام یقیناً ایک مثبت اقدام ہے لیکن اس سے بے پناہ غربت، بے روزگاری اور سماجی پستی کا بنیادی مسئلہ حل نہیں کیا جاسکتا۔
یہ مضمون 9 جنوری 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔