دیگر جمہوریتیں ضرور یہ سوچتی ہوں گی کہ آخر ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کے لیے اپنی کڑواہٹ کم کیوں نہیں کرسکتے، کیوں وہ ایک دوسرے سے جارحانہ رویے کے بغیر بات چیت نہیں کرسکتے؟
ان میں سے شاید ترک ہمیں کوئی مشورہ دینے کی بہترین حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔ 1960ء کی دہائی میں ترکی اور ایران کے ساتھ ہمیں امریکا کے ڈیزائن کردہ ریجنل کو آپریشن فار ڈیولپمنٹ نامی گاڑی سے باندھ کر قابو میں لایا گیا۔ حالیہ عرصے کی بات کریں تو ترکی کے ہمارے رہنماؤں کے ساتھ حیرت انگیز طور پر ذاتی نوعیت کے تعلقات رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنی جوانی کے 7 برس ترکی میں گزارے اور ترک زبان پر عبور بھی حاصل کرلیا۔ مانا جاتا ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کی ترک کمپنیوں کے ساتھ نفع بخش کاروباری شراکت داریاں ہیں۔
شہباز شریف جب پنجاب کے وزیرِاعلیٰ تھے تو انہوں نے اپنے معنی خیز لیکن بدبخت مہنگے منصوبوں کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کے ترک ماڈلز کو استعمال کیا۔ اب وزیرِاعظم خان نے صدر اردوان کے سابق اتحادی اور موجودہ مخالف، امریکا میں مقیم ترک عالم فتح اللہ گولن کے قائم کردہ 25 کیمپسز پر پابندی عائد کرتے ہوئے ترک صدر کو اپنا احسان مند بنا دیا ہے۔ ان کیمپسز کے 11 ہزار طلبہ کو اب ایسے اسکولوں کو تلاش کرنا ہوگا جن کا نصب العین یا موٹو ‘2 ممالک، ایک قوم‘ جیسا گمراہ کن نہ ہو۔
صدر اردوان کے ابتدائی برسوں میں ترک فوج کے ساتھ ان کا جو ٹکراؤ رہا اس کے گھاؤ اب تک ان پر ہرے ہیں۔ کیا وہ اپنے پاکستانی مہمان کو 2 ڈریگنز کے مشہور ترک قصے کی کتاب دینا چاہتے تھے؟ جس میں ایک ڈریگن کے کئی سر ہوتے ہیں اور ایک پونچھ ہوتی ہے، جبکہ دوسرے ڈریگن کا ایک ہی سر ہوتا ہے لیکن متعدد پونچھیں ہوتی ہیں۔ متعدد سروں والے ڈریگن کے سر آپس میں ہی لڑتے جھگڑتے ہیں جبکہ واحد سر والے ڈریگن کی پونچھیں اس کی تابع ہوتی ہیں۔
پاکستانی ووٹرز اس ترک قصے کے آخری حصے سے بڑی حد تک واقف ہیں، جی ہاں واحد سر والا ڈریگن دوسرے کو کھا کر زندہ رہتا ہے۔
یہ مضمون 10 جنوری 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔