پھر ملک کو بیرونی قرضوں کی مد میں قلیل عرصے میں بڑی ادائیگیاں کرنا تھیں۔ اس حوالے وزیرِاعظم عمران خان نے قوم سے بھیک نہ مانگنے اور کشکول توڑنے کے دعووں کے برعکس دوست ملکوں سے معاونت کی درخواست کی جس پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے مالی معاونت کے پیکجز ملے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے لیے گئے بیرونی قرضے ملکی تاریخ میں قلیل ترین مدت میں لیے جانے والے سب سے زائد قرض ہیں۔
زراعت کے لیے اقدامات
اسد عمر نے پہلے اور دوسرے ضمنی بجٹ میں زراعت کے حوالے سے جو اعلانات کیے ہیں اس سے کسان کو تو کسی حد تک فائدہ ضرور ہوگا، مگر ان اعلانات سے بینکس اور فرٹیلائزر سیکٹر کو براہِ راست فائدہ بھی ہوگا۔ ہمارے وزیرِ خزانہ کیمیائی کھاد کے شعبے کو خاص اہمیت دیتے ہیں کیونکہ زندگی کے بڑے حصے میں انہوں نے اسی شعبے سے اپنا رزق حاصل کیا ہے۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی کے پہلے اجلاس میں ہی یوریا کی کمی کے حوالے سے اقدامات پر فیصلے کیے تھے گئے اور ایک لاکھ ٹن یوریا کی درآمد کے علاوہ اس پر 7 ارب روپے سبسڈی دینے کا اعلان بھی پہلے ضمنی بجٹ میں کیا تھا۔ اپنے دوسرے ضمنی بجٹ میں اسد عمر نے نوید سنائی ہے کہ فرٹیلائزر سیکٹر پر عائد گیس ڈیولپمنٹ سرچارج کوختم کرنے کی منظوری بھی کابینہ آئندہ روز دے گی جس سے یوریا کی فی بوری قیمت مزید 200 روپے سستی ہوجائے گی۔
بجٹ خسارے کی اصل وجہ برقرار
پاکستان میں حکومتی خسارے کی وجہ وہ ادارے ہیں جن کو حکومت نے آمدنی بڑھانے اور نفع کمانے کے لیے قائم کیا تھا۔ مگر طویل عرصے سے مسلسل خسارہ کیا جارہا ہے۔
اسد عمر نے پاکستان اسٹیل، پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز (پی آئی اے) اور بجلی کی پیداوار اور ترسیل میں ہونے والے نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی۔ یہ بھی کہا کہ حکومت کو اپنے حسابات سے باہر بھی 2 ہزار ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے لیکن دوسری طرف آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق حکومت کو کاروباری اداروں کے خسارے سے سالانہ 1.2 ارب روپے کا خسارہ ہورہا ہے جو جی ڈی پی کا 4 فیصد ہے۔ جبکہ گزشتہ 5 سال میں سرکاری کاروباری اداروں کا خسارہ 3.47 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرچکا ہے۔
اس اہم ترین معاملے کو حل کرنے کے لیے حکومت نے تاحال کوئی پالیسی نہیں دی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اگر نیا پاکستان قائم کرنا ہے اور حکومتی بجٹ خسارے کو ختم کرنا ہے تو پھر اس مقصد کے لیے حکومت کے خسارے میں چلنے والے اداروں کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ جب تک حکومت اس ضمن میں کوئی ٹھوس پالیسی وضع نہیں کرتی ہے اس وقت تک حکومتی مالیات کا شعبہ بہتر نہیں بنایا جاسکتا ہے۔