بارو بروٹس جیسی خوبیاں رکھنے والے گروہ کا حصہ ہیں جو آپ کو پورے برِصغیر میں مل جائیں گے۔ جو پنڈت نہرو کے پاس ایم او متھائی کی صورت میں تھا، وہ ان کا 13 سال پرنسپل سیکریٹری رہا۔ اندرا گاندھی کے پاس وی سی شکلا کی صورت میں تھا۔ صدر ایوب خان نے اپنا بروٹس الطاف گوہر کی صورت میں پایا اور ذوالفقار علی بھٹو نے مولانا کوثر نیازی کی صورت میں۔ تمام سیاستدانوں کو ایک ترجمان کی ضرورت ہوتی ہے، جس کی آواز ان کی اپنی آواز سے زیادہ گونجتی ہو، مگر یہ گونج اس وقت مدھم ہوجاتی ہے جب کرایہ کی آواز اپنی ہی پسند کا راگ الاپنے لگ جاتی ہیں۔
ہندوستان میں کچھ لوگوں کو شک ہے کہ دی ایکسیڈینٹل پرائم منسٹر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بنوائی ہے تاکہ شری متی سونیا گاندھی کی ’پلو سے بندھی‘ طرزِ حکومت کا انکشاف کیا جاسکے۔ ان کے بیٹے راہول گاندھی یہ ثابت کرنے کی بھرپور کوششیں کر رہے ہیں کہ وہ بالارادہ (intentional) وزیرِاعظم بن سکتے ہیں۔ انہیں اعلیٰ قیادت کی باگ ڈور ملنا ریورس ورٹیکل اوسموسس (پانی صاف کرنے کا ایک نظام) کی ایک دلچسپ مثال پیش کرتا ہے۔ انہوں نے اپنی والدہ کی گاندھیاتی بلندی سے ڈوبتے ہوئے سیکھا ہے اور اب ان کا مقصد ہے اپنے نہرو-وی ورثے کو بحال کرنا۔ کیا انہوں نے ڈنگ ژیاؤ پنگ کی وارننگ بھی پڑھ رکھی ہے؟ جو کچھ یوں ہے کہ ’نوجوان رہنما طبقے ہیلی کاپٹر کے ذریعے اونچائیوں پر پہنچے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ زینہ بہ زینہ بلندی کا سفر کریں۔‘
پاکستان میں یہ فلم ہماری اپنی سیاسی صورتحال کا ایک دلچسپ عکس پیش کرتی ہے۔ کیا یہ کہنا غلط ہوگا کہ ہم یہاں منتخب، سلیکٹڈ، حادثاتی، غیر ارادی، جذباتی وزرائے اعظم اور زیبائشی وزرائے اعظم دیکھ چکے ہیں؟ یہ فلم ایک تاکیدی کہانی ہے جو ہماری جیسی ظاہری جمہوریتوں کو وارننگ دیتی ہے کہ وہ ظاہری اور باطنی حکمرانی کے تجربات سے باز رہیں۔
ڈنگ ژیاؤ پنگ اور ڈاکٹر من موہن سنگھ کی طرح ہمارے وزیرِاعظم عمران خان خود کو ایک دانا اصلاح کنندہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ابھی تک وہ ایڈورڈ گبن کے آدھے مشورے پر عمل پیرا ہوئے ہیں کہ، ‘اصلاح کنندہ کو مفادات کے شکوک و شبہات سے آزاد ہونا چاہیے۔‘ تاہم انہیں ابھی بقیہ آدھے مشورے پر کام کرنا باقی ہے کہ ’اور اسے ان لوگوں کا اعتماد اور احترام حاصل کرنا ہوگا جن کی وہ اصلاح کرنا چاہتا ہے۔‘