میڈیا کا مقبول عام ذریعہ
تمام صحافتی اداروں کی ترجیح نیوز ویب سائٹ (ویب ٹی وی) بن جائے گی۔ جہاں صرف 'ہر فن مولا' صحافی ہی قابل قبول ہوگا۔ مطلب وہ صحافی جسے صرف خبر بنانا ہی نہیں بلکہ اچھی خبروں کی سلیکشن سے لے کر خبر کی بہترین پریزنٹیشن کے اصول بھی اسے معلوم ہو۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس کے لیے یہ لازم ہو کہ اسے تصویر اور ویڈیو کی ایڈیٹنگ بھی کرنا آتی ہو۔ کیونکہ جب آمدن کم ہوجائے گی تو پھر میڈیا ہاؤسز ضرورت سے زیادہ اسٹاف رکھنے کو ’کفر‘ محسوس کریں گے۔ خبروں، تبصروں اور رپورٹس کے لیے صحافیوں کے علاوہ فری لانس صحافیوں کی بڑی تعداد منظرِ عام پر آئے گی۔ یعنی، میڈیا ہاؤسز روایتی خبروں سے ہٹ کر جو مواد پیش کریں گے وہ ممکنہ طور پر فری لانس صحافی کی مرہون منت ہوگا۔
ابھی کیا ہورہا ہے؟
گزشتہ چند برس سے پاکستان میں صحافت کو ایک مشکل درپیش ہے، جسے ’انٹرویو مبنی صحافت‘ بمقابلہ ’تحقیقی صحافت‘ کہا جاسکتا ہے۔ وسائل کو بچانے اور زیادہ سے زیادہ خبریں پیدا کرنے کے لیے انٹرویو پر مبنی صحافت اپنے عروج پر ہے۔ احتساب عدالت سے نکلنے والے سیاستدان، پروگرام میں مدعو کیے گیے سیاسی تنظیموں کے نمائندوں کی یکطرفہ باتوں یا لعن طعن کو خبر کا روپ دے کر ریٹنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اس ضمن میں متنازع تبصرے کو مزید بھڑکانے کے لیے مخالف سیاسی جماعت کا موقف شامل کرلیا جاتا ہے اور یوں الزام تراشی سے ناظرین اور قارئین دونوں ہی ’ہوا میں مولق‘ رہتے ہیں۔ یقیناً تفیش یا تحقیقی رپورٹنگ کے نتیجے میں معیارِ صحافت بڑھے گا۔ خبروں میں توازن اور غیر جانبداری جھلکے گی۔
جس طرح ناظرین ’ڈراموں میں یکسانیت پر مبنی موضوعات سے دلبرداشتہ‘ ہیں اسی طرح ’لاحاصل سیاسی بحث و مباحثے‘ سے بھی خائف ہیں۔ صحافتی تاریخ میں دائیں اور بائیں بازوں کے صحافیوں کے مضامین میں جھکاؤ ملتا ہے لیکن واضح رہے کہ ’کسی بھی نوعیت کے خیالات یا نظریات کے پرچار کے لیے اخبارات میں آراء پر مبنی کالم ہوتے ہیں لیکن خبروں میں نظریات کا ’پیوند‘ لگانا فرائض سے ناانصافی اور قارئین کے ساتھ ظلم ہے۔ حالیہ عام انتخابات میں 2 بڑے چینلز کا سیاسی جماعتوں کی جانب جھکاؤ سب پر عیاں ہوچکا ہے اور ناقدین کے تلخ تبصرے ان کے مقدر بن چکے ہیں جو یقیناً صحافتی تاریخ میں بدترین مثال ہے۔
حالات اسی طرح رہے تو صورتحال آنے والے سالوں میں کیسی ہوسکتی ہے؟
- یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ انٹرنیٹ کی بدولت بزنس سمٹ کر اسمارٹ موبائل فون پر آگیا ہے۔ سرکاری اشتہارات کی عدم فراہمی کے نتیجے میں پہلے تو وہ تمام نام نہاد صحافتی ادارے جو سرکاری اشتہارات یا ’سیاسی اثر و رسوخ‘ کی وجہ سے صحافت کی آڑ میں اپنے ’امور سیدھے‘ کرنے میں مصروف تھے، گمنام ہوجائیں گے کیونکہ اچھا کام کرنا تو دُور کی بات، ان کے بس میں تو کام کرنا بھی نہیں ہے.
- اس ضمن میں قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ اخبارات، چینل اور نیوز ویب سائٹ ’دقیانوسی موضوعات‘ سے کنارہ کشی اختیار کرکے ’منفرد و متنوع موضوعات‘ زیرِ بحث لائیں گے جس کا معیار اور مقدار دونوں ہی قابلِ ستائش ہوگا۔
- شخصی صحافت کا سلسلہ قیامِ پاکستان کے بعد اختتام پذیر ہوا اور ساتھ ہی عالمگیریت کے سائے میں صحافتی صنعت درجہ اختیار کرگئی۔ پاکستان میں گزشتہ 20 برس کے دوران صحافتی ادارے مجموعی طور پر ’معاشی اعتبار‘ سے مستحکم ہوئے لیکن صحافت اور صحافی ملازمین کے حالات درگرگوں ہی رہے۔ ملک میں آزادی صحافت کی بقاء کے لیے میڈیا ہاؤس مالکان سمیت صحافیوں نے ہر فورم پر آواز اٹھائی لیکن صحافیوں کو حاصل آئین کی رُو سے ملنے والے حقوق ہمیشہ ’غیر اہم موضوعات‘ رہے۔ بشمول صحافیوں کی نمائندہ تنظیمیوں کی جانب سے کوئی قابل ذکر تحریک نظر نہیں آتی۔
- مجموعی صورتحال کے نتیجے میں صحافتی ادارے اگلے ایک سے دو برس میں ’مالی بحران‘ کی وجہ سے کئی سو ملازمین کو برطرف کردیں گے اور صرف وہ ہی صحافی اور دیگر ملازمین ادارے کا حصہ رہیں گے جو ’ہر فن مولا‘ ہوں گے۔ لیکن فری لانس صحافی، لکھاری، وی بلاگر کی اہمیت بڑھ جائے گی۔