میڈیا ہاؤسز کو ’بزنس ماڈل‘ کی تبدیلی کا مشورہ کیوں؟
سوشل میڈیا پر صحافتی اداروں کی بندش اور ملازمین کو جبری برطرف کیے جانے کی مایوس کن خبریں جاری ہیں۔ عدم اطمینان اور تشویش کے سائے دیگر مستحکم صحافتی اداروں کے ملازمین پر بھی منڈلا رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے میڈیا ہاؤسز کو سرکاری اشتہارات پر انحصار کرنے کے بجائے اپنا بزنس ماڈل تشکیل دینے کا ’مشورہ‘ تابوت میں آخری کیل کے مترادف سمجھا جائے تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔
یقیناً یہ اس امر کی جانب اشارہ ہے کہ حکومت کو محسوس ہوگیا کہ محکمہ انفارمیشن میں اشتہارات کی بندر بانٹ سے چلنے والے ڈمی اخبارات کا قلع قمع کرنے کے لیے کریک ڈاؤن کی پالیسی اپنانے کے بجائے اشتہارات ہی بند کردیے جائیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے محکمہ آڈٹ بیورو سرکولیشن (اے بی سی) کی ’کرپشن‘ کو بے نقاب کرنے کے بجائے پورے محکمے کو ہی ’بائے پاس‘ کرنے کا ارادہ کرلیا۔ گزشتہ چند مہینے پہلے ہی احتساب بیورو کے اہلکار محکمہ انفارمیشن کے دفتر سے فائلوں کا پلندہ ساتھ لے گئے اور یقیناً وہ ابھی ڈمی اخبارات کو ’نوازنے‘ کا پیمانہ جانچ رہے ہوں گے۔
بہرحال ایڈیٹرز کی نمائندہ تنظیم (سی پی این ای) کے کنوینشن میں صدرِ مملکت کا بیان سمجھداروں کے لیے دو ٹوک تھا۔ لہٰذا صحافیوں کی نمائندہ تنظیمیں بھی اب اپنا ’قبلہ‘ درست کرکے نیوز پیپر ایمپلائز ایکٹ 1973ء کو روبہ عمل بنانے کے لیے سنجیدہ جدوجہد کا آغاز کرلیں تو بہتر ہے۔
لیکن ان سارے بیانات اور ارادوں سے ایک بڑا سوال سر اٹھائے کھڑا ہے کہ اگر سرکاری اشتہارات بند یا محدود ہوئے تو اگلے چند برس میں آزادی صحافت کو کس طرح کے خطرات لاحق ہوں گے؟ اور خبروں، تجزیوں اور تبصروں کے لیے میڈیا کا کون سا ذریعہ مقبولِ عام ہوگا؟
پاکستان میں میڈیا کی اگلی شکل کیا کیا روپ اختیار کرسکتی ہے؟
آزادی صحافت اور معلومات کی ترسیل
ممالک کی تخصیص کیے بغیر آزادی صحافت ہر دور اور ہر ملک میں مختلف چینلجز سے دوچار رہتی ہے کیونکہ ’اس کا تعلق نظریے، سوچ، زوایے اور تفریق‘ سے ہے، لہٰذا سوچ کا ٹکراؤ یقینی ہوتا ہے۔ پاکستان میں صحافت کا معیار پڑوسی ملک بھارت کے مقابلے میں بہرحال بہت بہتر ہے لیکن ملک میں آزادی صحافت کو سینسر شپ کے علاوہ بڑا خطرہ ’جانبدارخبروں‘ سے ہے اور جب تک اخبار کے مالک کو چینل کھولنے اور چینل کے مالک کو اخبار شائع کرنے کی اجازت واپس نہ لے لی جائے، یعنی معلومات کی تقسیم کے ذرائع پر کسی ایک ادارے یا فرد کی ملکیت کو ختم نہ کردیا جائے۔
پاکستان سمیت متعدد ممالک میں Cross-media Ownership پر پابندی ہے یعنی ایک شخص یا ادارہ ایک سے زائد میڈیا ہاؤس کا مالک نہیں ہوسکتا۔ اخبار کا مالک صرف اخبار نکالے گا لیکن پاکستان میں اخبار کا مالک اپنے کسی عزیز یا راشتے دار کے نام پر چینل کا لائسنس لے کر ’قانون سے کِھلواڑ‘ کرتا ہے، جسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اس کمزوری کو قانون اور احتساب اداروں کی نااہلی قرار دیا جاسکتا ہے۔
بطورِ طالبعلم میرا استدلال ہے کہ ’اشتہارات کی مد میں کرپشن کا سلسلہ محکمہ ’اے بی سی‘ سے شروع ہوتا ہے۔ سندھ میں ہزاروں ڈمی اردو اور سندھی اخبارات کے پاس محکمہ ’اے بی سی‘ کا سرٹیکفیٹ موجود ہے جس پر ان کی سرکولیشن 50 ہزار سے 1 لاکھ درج ہیں تاہم مارکیٹ میں اس کی کاپیاں محض انگلیوں پر گنی جاسکتی ہیں۔ لیکن ہاں، اگر مستقبل میں سرکاری اشتہارات کو محدود کیا گیا تو ان ’ڈمی اخبارات‘ کو سب سے زیادہ نقصان ہوگا۔
نیوز ویب سائٹ / ویب ٹی وی
معلومات یا خبروں کی ترسیل کا عمل روایتی ڈگر سے ہٹ کر مغربی طرز اپنائے گا۔ پاکستان میں متعدد محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آئندہ چند برسوں میں میڈیا ہاؤسز اپنی نیوز ویب سائٹ (ویب ٹی وی) متعارف کرانے پر مجبور ہوں گے کیونکہ پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے، بڑی تعداد میں لوگ انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے موبائل یا کمپیوٹر سے خبروں یا تبصروں سے اپنی تسلی حاصل کرتے ہیں۔
سبسکرپشن
میڈیا ہاؤس اپنی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سبکرپشن کی مد میں ماہانہ یا سالانہ معمولی فیس رکھیں گے۔ یعنی اخبار پڑھنے یا چینل دیکھنے کے لیے فیس ادا کرنی ہوگی۔ ظاہر ہے، تب میڈیا ہاؤس کی جانبداری کا رجحان کم ہوجائے گا اور جو ادارہ بھی متوازن اور غیر جانبدار خبریں، تبصرے اور متنوع مواد پیش کرے گا، جیت اسی کی ہوگی۔ گویا، ہمارے اخبارات اور چینلز پر ’مغربی طرز کی صحافت کی جھلک‘ نظر آئے گی۔
عین ممکن ہے کہ علاقائی زبان میں چھپنے والے اخبارات کے قارئین سبکریشن کی جھنجھٹ کو قبول نہ کریں، بلکہ یہ بھی عین ممکن ہے کہ اردو اخبار کے قارئین کو بھی یہ سمجھنے میں تھوڑا وقت لگے کہ دنیا بھر میں میڈیا ہاوسز اسی طرح کام کرتے ہیں۔ مثلاً نیویارک ٹائمز، وال اسٹریٹ جرنل اور واشنگٹن پوسٹ نے اخبارات کی سرکولیشن کو انتہائی محدود کرلیا اور اب صرف امریکا کی بعض مشرقی ساحلی ریاستوں میں قارئین کے لیے یہ سروس موجود ہے لیکن دنیا بھر میں موجود قارئین سبکریشن کی ادائیگی کے ذریعے ہی ان کی رپورٹس کا مطالعہ کرتے ہیں۔
اس ضمن میں ایک اور مثال پیش خدمت ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے دی گارجین نے معاشی بحران کے باعث اپنے اخبار کی طباعت بند کردی لیکن صحافت نیوز ویب سائٹ کے ذریعے قائم ہے۔ دی گارجین کی ویب سائٹ پر کوئی اشتہار شائع نہیں ہوتا لیکن ایک پیغام قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے جو کئی اعتبار سے انتہائی جذباتی ہے۔ اس پیغام کا خلاصہ یہ ہے کہ ’جناب قارئین! ہم آپ کو دنیا بھر کی خبریں اور بہتر تبصرے بغیر کسی ادائیگی کے فراہم کرتے ہیں، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہماری صحافت کا معیار اعلیٰ درجے کا ہے تو ایک ڈالر عطیہ کردیں تاکہ متوازن اور غیر جانبدار معلومات کی ترسیل کا عمل جاری رہے‘۔
مغربی ممالک کے تمام بڑے صحافتی ادارے اپنے قارئین کے لیے تفتیش و تحقیق پر مبنی مواد ڈالتے ہیں اور قارئین طے شدہ ادائیگی کے بعد رپورٹ کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہ طریقہ پاکستان میں بھی تیزی سے رائج ہوجائے گا۔
قارئین اور ناظرین ادائیگی کے بعد ہی اپنا پسندیدہ اخبار پڑھ یا چینل دیکھ سکیں گے۔ جب ترجیحات عوام کی ہوں گی تو بدرجہ مجبوری میڈیا ہاؤسز ان کے مسائل پر مبنی پروگرام اور خبریں نشر کرنے میں زیادہ دلچسپی لیں گے۔ یعنی قومی نوعیت کے مسائل کے علاوہ ضلعی مسائل پر سیر حاصل رپورٹنگ ہوگی اور اس طرح سماجی نوعیت کے اہم مسائل پر ترتیب وار پروگرامز اور خبریں صفحہ اول پر اپنی جگہ بنا پائیں گے جبکہ صحفہ اول پر غیر اہم سیاسی ’جھاڑ جھنکار‘ اور نیم دراز لڑکیوں کے بڑے اشتہارات کا سلسلہ تھم جائےگا۔
یوں صحافتی اداروں کی ساری ترجیحات ٹھیک موضوع کے انتخاب اور اس پر غیرجانبدار تحقیقی رپورٹس پیش کرنے پر مرکوز ہوسکے گی تاکہ زیادہ سے زیادہ قارئین سبکریشن کے ذریعے ادائیگی کریں اور ادارہ اپنے مالی اخراجات پورے کرسکے۔
