اسٹارٹ اپ ایکسچیج پروگرامز کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر مشترکہ طور پر کام کیا جارہا ہے اور وقت آگیا ہے کہ حکومت انٹرپرینیورشپ اور جدت (innovation) کی بنیاد پر دو طرفہ تعلقات قائم کرے۔ عالمی مسائل کو ساتھ مل کر حل کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں انٹرپرینیورشپ کا منظرنامہ ترقی کی طرف مائل نظر آتا ہے، لیکن یہ تو سفر کی ابھی شروعات ہے۔ انٹرپرینیورشپ کا کوئی بھی ماحول 4 اہم عناصر پر مشتمل ہوتا ہے۔
1 کاروبار کے بانی
ہمیں ایسے مزید کاروبار بانی درکار ہیں جو پُرجوش ہوں، اپنے کام کے ماہر ہوں اور جو نہ ہی اپنی حکمتِ عملی کو بدلنے میں ہچکچاتے ہوں اور نہ ہی اپنے خوابوں کو ترک کردیتے ہوں۔
2 سرمایہ کار
ہمیں ایسے زیادہ سرمایہ کار چاہئیں جو پیسے لگانے اور خاص طور پر اپنا وقت اور رابطے دینے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ کریں۔ ایس ایم ای شعبے کے سی ای اوز کو ریئل اسٹیٹ سے زیادہ نوجوان انٹرپرینیورز میں زبردست اعتماد بحال اور سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ اس رجحان کو پیدا کرنا ہوگا۔
3 استاد
استاد انٹراپرینیورز یا خود انٹرپرینیورز ہونے چاہئیں۔ وہ صحیح سوالات پوچھنے اور کاروبار کے بانیوں کو اسٹریٹجک ہدایات دینے کے ساتھ ہی ساتھ اپنے دیے گئے مشوروں کی پیروری کرتے رہنے اور ان کی ذمہ داری لینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
ہمارے ہاں سرگرم ہوکر کام کرنے والے بہترین استادوں کی بڑی کمی ہے۔ آج کے نوجوان بانی کل کے بہترین استاد بن سکتے ہیں، انہیں اپنے علم سے دیگر کو مستفید کرنا چاہیے۔
سہولت کار
یہ وہ لوگ ہیں جو انکیوبیٹرز اور ایکسی لیٹرز چلاتے ہیں، کاروبار شروع کرنے والوں اور صنعت کے درمیان پل کا کام انجام دینا چاہتے ہیں اور ایک قدم آگے چل کر کام کرنے میں بھی نہیں ہچکچاتے۔
نبیل قدیر پاکستان میں یو این سی ٹی اے ڈی — کامن ویلتھ انٹرپرینیورشپ پراجیٹ اور سُپیریئر گروپ کے سی آئی او ہیں۔
**یہ مضمون ارورا میگزین کے نومبر اور دسمبر کے ایڈیشن میں شائع ہوا ہے. **