گزرتے وقت کے ساتھ دیگر کے مقابلے میں حاصل امتیازی فرق زندگی میں مددگار ثابت ہوتا رہتا ہے اور پھر ایک نکتہ آتا ہے کہ جب یہی لوگ، جو عام طور پر مراعت یافتہ حلقے میں آتے ہیں، محسوس کرنا شروع کردیتے ہیں کہ وہ تو ہمیشہ سے ہی کامیابی کے مستحق تھے اور انہوں نے سب کچھ اپنے بل بوتے پر حاصل کیا ہے، دوسری طرف ہم سب ان کی بات تسلیم کرنا شروع کردیتے ہیں اور معاشرے میں اپنی جگہ پر آرام سے جا بیٹھتے ہیں۔
ہم میں سے چند لوگ اس خیال سے اختلاف کرسکتے ہیں یا پھر ناراض ہوسکتے ہیں، خاص طور پر جب سخت محنت کو خاطر میں نہ لایا جائے، یہ قابل فہم بات ہے۔
لیکن اس مراعت کو حقیقی معنی میں جڑ سے اکھاڑنا ہے تو ہمیں اسے ایک منظم ڈھانچے کے طور پر تسلیم کرنا ضروری ہے جو کسی فرد کو محض اس کی شناخت کی بنیاد پر مفت میں برتری بخش دیتا ہے، جیسے دکھائی نہ دینے والے خصوصی حقوق کا پیکج حاصل ہو جو جب چاہے آپ اپنی مرضی سے استعمال کریں اور انکار سے اس ڈھانچے کو تقویت بخشتا ہے۔ ویسے بھی کون یہ تسلیم کرنا چاہے گا کہ انہیں پہنے ہوئے جوتے دراصل ان کے باپ کی کمائی سے خریدے گئے ہیں جو کامیابی کا سفر جلدی طے کرنے میں ان کے لیے مددگار ثابت ہوئے؟
اگر آپ کسی طرح یہ تسلیم کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ زندگی کی ریس کے اندر ’آپ کہاں پیدا ہوئے‘ یا ’آپ کیسے دکھتے ہیں‘ جیسی پیدائشی امتیازی حیثیت نے مدد کی جس میں آپ کا کوئی قصور نہیں، تو پھر آپ کو جوابدہ ہونا پڑے گا۔
آپ اپنی کامیابی کے پیچھے وجوہات کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ خود کو حاصل مراعت کو تسلیم کرلینے سے آپ اپنے اندر موجود متکبر خیال کو ختم کرنے لگتے ہیں کہ آپ کے عروج کے پیچھے صرف آپ ہی ہاتھ ہے۔ چند لوگوں کے لیے اس خیال کو ہضم کرنا بہت ہی دشوار ثابت ہوسکتا ہے۔
یہ مضمون 3 فروری 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔