سیاسی فیس بُکیے

06 جنوری 2017
فہد ملک محقق ہیں۔
فہد ملک محقق ہیں۔

ہم میں سے کتنے لوگ آن لائن یا اپنے گھر والوں یا دوستوں کے ساتھ کھانے کی دعوت کے موقع پر دلائل پر مبنی سیاسی بحث میں حصہ لینے کی کوشش کر چکے ہیں کہ جس کے آخر میں ہم اپنا سر دیوار سے ٹکرا لینے پر مجبور نہ ہوئے ہوں؟

نہ صرف یہ کہ ہمارے مخالفین بڑی آسانی سے اشتعال انگیز سیاسی نظریات — مثلاً الیومیناٹی گائے کے گوبر سے لے کر سیٹلائٹس کی گردش تک سب کچھ کنٹرول کر رہی ہے، یہودی پیدا ہی مسلمانوں کے خاتمے کے لیے ہوئے ہیں وغیرہ وغیرہ — کو تسلیم کر لیتے ہیں، بلکہ یوں لگتا ہے کہ وہ ایک متبادل حقیقی دنیا میں جی رہے ہیں۔

اور جب پاکستان کی پیچیدہ تاریخ کا تجزیہ آپ کسی تجسس سے عاری شخص سے سنیں جو کلکس حاصل کرنے کے لیے بنائی گئی سرخیوں کو ہی سچ سمجھتا ہے، تو معاملات مزید پیچیدگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

پاکستان کا سیاسی منظرنامہ نکتوں کے ایک الجھے کھیل سا ہے۔ جہاں کہیں غلط نکتہ دوسرے نکتے سے منسلک ہوا، تو بس پوری تصویر ہی بگڑ گئی۔ تاریخی سیاق و سباق بنیاد تشکیل دیتا ہے؛ ایجنڈے، قومی، علاقائی (اور اکثر و بیشتر ذاتی)، سیاسی محرکات متعین کرتے ہیں۔

پڑھیے: سوشل میڈیا: جھوٹ پھیلانے کا آسان ذریعہ؟

اگرچہ یہی عناصر دنیا میں موجود ہر ایک ملک کی سیاسی رسہ کشی، ریاستوں کے مابین تعلقات اور خارجہ پالیسی متعین کرتے ہیں، مگر پاکستان کی نظریاتی تشکیل، جس کی بنیاد یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن، اس ملک کے سیاسی کلچر کو نسبتاً کافی حد تک مختلف بنا دیتی ہے۔

جغرافیہ بھی ہمارے سیاسی منظر نامے کے لیے خیرخواہ ثابت نہیں ہوتا۔ مشرق میں ہمارا دشمن انڈیا ہے، اور مغرب و شمال مغرب میں ہم ایران اور افغانستان کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔ مذکورہ دو اسلامی ممالک اسلام کے دو مختلف برانڈز کی نمائندگی کرتے ہیں، ایسی صورتحال میں پیچیدگیاں تو ناگزیر ہی ہیں۔

علاوہ ازیں، یہ وہ ملک ہے جو متعدد جنگیں لڑ چکا ہے، اور اس نے اپنا مشرقی حصہ بھی ٹوٹتے دیکھ چکا ہے۔ یہ مختلف مواقع پر سول ملٹری تنازعات کو سہہ چکا ہے۔ اس تمام صورتحال کے پیش نظر ایک ذی شعور شہریوں کے لیے بھی مفروضوں پر قائم باتوں اور تعصب کو ایک جگہ رکھ کر پاکستان کے بارے میں غیر جانبدار سیاسی رائے قائم کرنا خاصا مشکل بن جاتا ہے۔

اور یہ سب فیس بک کے آنے سے پہلے کی باتیں ہیں۔

فیس بک ہمیں نہ صرف ’آپس میں جڑنے اور شیئر کرنے‘ میں مدد دیتا ہے، بلکہ بڑی حد تک یہ بھی واضح کرتا ہے کہ ہم بطور ایک قوم اپنے سیاسی معاملات کے بارے میں ایک تعمیری گفتگو کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ تحقیق کی شدید قلت اور عام تنقیدی سوچ کی کمی کی وجہ سے ہمارے عوام مختلف اور باریک سیاسی نظریات کو طرح طرح کے رنگوں میں رنگ چکے ہیں۔

چند دن قبل بز فیڈ کی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ سوشل میڈیا، خاص طور پر فیس بک پر وائرل ہونے والا گمراہ کن مواد، بائیں اور دائیں دونوں کیمپس سے پوسٹ ہوتا ہے۔ جانبدارانہ اور اشتعال انگیز مواد کروڑوں لوگوں تک غلط معلومات کا ایک مسلسل ڈوز فراہم کرتا ہے، جس میں مشتبہ پیجز ان کی مدد کرتے ہیں جو شیئرز، کمنٹس، لائیکس یا ری ٹوئیٹس کے لحاظ سے کسی مرکزی دھارے کے میڈیا ہاؤس کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔

پڑھیں: کیا فیس بک پر آپ کا کوئی جانشین ہے؟

اسی طرح پاکستان کے سیاسی نوسکھیوں کی جانب سے پھیلا گیا مشتبہ مواد اس عوامی اکثریت کے ذریعے زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے جو اس بیانیے کا تنقیدی جائزہ لینے کی صلاحیت نہیں رکھتی جسے پھیلانے میں وہ مدد کر رہی ہوتی ہے۔

شدید قوم پرست فیس بک پیجز اپنے مواد کو اس انداز میں پرکشش بنا کر پیش کرتے ہیں کہ جس سے لوگوں کے جذبات عقل و دلائل پر غالب آ جائیں، یہی وجہ ہے کہ جب ایسی کسی معلومات کی تصحیح کی جاتی ہے تو اس مواد پر یقین رکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد اشتعال انگیز رد عمل دیتی ہے۔

مگر سارا قصور فیس بک پر متحرک سیاسی کارندوں کے کاندھوں پر ڈالنا بھی درست نہیں ہے۔ جیسا کہ امریکا میں ہونے والے انتخابات کے دوران دیکھا گیا، جب فیس بک کو امریکا میں اپنے صارفین کے فیس بک نیوز فیڈ میں کچھ اس طرح مداخلت کرنے کا ملزم قرار پایا گیا کہ امریکا میں موجود اپنے صارفین کی نیوز فیڈ پر ان کی ذاتی سوچ اور متعصب نظریے کو تقویت بخشتا مواد ہی پیش کیا جا رہا تھا جبکہ ان صارفین کے پاس اپنے نظریات کا متبادل یا تنقیدی سوچ پر مبنی مواد پیش ہی نہیں ہو پا رہا تھا۔

چونکہ اس بات کا زیادہ سے زیادہ امکان ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے ہی سیاسی بیانیوں کے بارے میں دیکھنا چاہے گا تو ظاہر ہے کہ وہ اس سے متعلق پوسٹ پر کلک بھی کرنا چاہے گا، اور یوں پھر اشتہاروں سے منافع بھی زیادہ حاصل ہو پائے گا۔

اشتعال انگیز سیاسی دھوکے بازی نہ صرف سوشل میڈیا کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ہے، بلکہ بند کمروں کی بھی تعمیر کر رہی ہے۔ لوگوں کو ان کی پسند کی باتیں سنانے اور متبادل نکتہ نظر کو نظر انداز کرنے سے سچی اور مشکوک معلومات میں تمیز کرنے کی ہماری صلاحیت مزید کم ہو جائے گی۔

ایک ایسے ملک کے لوگوں کے لیے، جو اب تک یہ فیصلہ بھی نہیں کر پائے کہ آیا آمر کو سلیوٹ کرنا چاہیے یا رہنما کو ووٹ ڈالنا چاہیے، حقائق کو ماننے سے انکار کو ایک ایسا لاعلاج مرض تصور کیا جاسکتا ہے جو کہ معلومات کے حصول اور اس پر تحقیق کی ہماری صلاحیت چھین سکتا ہے۔

فیس بک مبہم سیاسی معلومات سے بھرا ہوا ہے۔ اس سے بھی بدتر یہ بات ہے کہ نصف حقیقی باتوں کو مہارت کے ساتھ حقائق میں پرو کر عوام کے لیے انٹرنیٹ پر پھیلا دیا گیا ہے۔ آپ کے پاس چاہے جتنا بھی اشتعال انگیز نظریہ کیوں نہ ہو، اس بات کے روشن امکانات موجود ہیں کہ فیس بک پر کوئی نہ کوئی پیج اسے سچ کے طور پر پھیلا رہا ہوگا۔

اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فیس بک پر ہونے والی زیادہ تر سیاسی بحث حقیقت اور افسانے کی درمیانی لکیر کو دھندلی کر دیتی ہے۔ اگر ہم سوشل میڈیا کو تبدیلی کا ایک ذریعہ بنانا چاہتے ہیں، تو ہمارے لیے ’گہرا علم‘ حاصل کرنا اب اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔

گہری تحقیق کے ذریعے نظریات کی پڑتال اور دلائل پر مبنی تنقیدی سوچ کو پیدا کرنا، پاکستان میں ایسے سیاسی انتشار کو ختم کرنے کی سمت میں پہلا قدم ہوگا۔

انگلش میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں